Wednesday 18 September 2013

”میں ہوں شاہد آفریدی“......Film Review





”پینسٹھ (65 ) سال میں پاکستان کی غریب عوام کو ہر چیز سے محروم کر دیا گیا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ کرکٹ بھی ان سے چھین لی جائے“۔ جب فلم میں بولا جانے والا ایک ڈائیلاگ حقیقت سے انتا قریب ہو توپھر باقی فلم کیسی ہوگی اس کا اندازہ فلم کا رویو پڑھتے پڑھتے لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے ہر گلی محلے میں کھیلے جانے والے کھیل کرکٹ کے بے شمار شایقین موجود ہیں۔”میں ہوں شاہد آفریدی“پاکستان میں پہلی مرتبہ کھیل کے موضوع پربننے والے فلم ہے ، جسے بھر پور انداز میں لوگ دیکھنے آ رہئے ہیںاور پسند بھی کر رہئے ہیں۔ ایسی فلم جس کی بدولت ”بوم بوم شاہد آفریدی“ نام کے فلک شگاف نعرے کھیل کے میدانوں سے نکل کر سینما گھروں تک پہنچ گئے ہیں۔

اس فلم میں جذبات ، مذاح ،موسیقی ، فلمی مصالحہ، رشتے ، اتحاد ، جنون ، مار دھاڑ ، ایکشن، کھیل کے میدان کا جوش، کھلاڑیوں کا غصہ ، ہار جیت کی ٹینشن ، اڑتی وکٹیں، چھکے چوکے سب ہی کچھ موجود ہے۔
 سید علی رضا کی ڈائریکشن میں بنی اس فلم کو ہمایو سعید اور شہزاد نصیب نے پروڈیوس کیا ہے۔ یہ ایک مکمل طورپر فیملی فلم ہے جسے گھر کے بچوں سے لے کر بوڑھے بھی پسند کر رہئے ہیں۔

فلم کی کہانی ایک نوجوان کرکٹر کی ہے جو کہ شاہد آفریدی بننا چاہتا ہے اور پاکستانی کرکٹ کو ایک نئے مقام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کے خواب کو پورا کرنے کیلئے اس کا کوچ اس کا ساتھ دیتا ہے۔ جبکہ اس خواب کی تعبیر کے درمیان بہت ساری مشکلات حائل ہوتی ہیں جن سے لڑتے لڑتے اور بھر کامیابی حاصل کرتے فلم اختتام پذیر ہوتی ہے۔
منفی کردار میں(میاں آصف قریشی) ”جاوید شیخ“ ، کوچ کے انداز میں(اکبر) ” ہمایو سعید “،اس کی بیوی کے کردار میں ” ماہ نور بلوچ“،اکبر کے والد کے کردار میں مسٹر بیگ، آئٹم سانگ میں بجلیاں گراتی اور مستی میں ڈوبی ”متیرا“،”شفقت چیمہ “اور کئی نئے اداکاروں کی بہترین اداکاری سے بھر پور یہ فلم موسیقی اور بہترین کھیل کا نمونہ پیش کرتی ہے ۔ فلم کی موسیقی شدت سے بھر پور ہے اور بہترین ڈرامہ پیش کرتی ہے۔ فلم بینوں کا کہنا ہے کہ تکنیتی لحاظ سے فلم بہترین ہے ۔

جاوید شیخ کا کہنا ہے کہ یہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی ہے ۔ ہمایو سعید کا کہنا ہے آڈینس کا مثبت رسپونس دیکھ کر بہت خوش ہو رہی ہے۔ جس طرح لوگ یہ فلم دیکھنے آ رہئے ہیں یہ دیکھ کر مجھ سے زیادہ خوش اور کوئی نہیں ہے۔فلم کی رلیز پر بہت سے پاکستانی اداکاروں کو دیکھا گیا ، جنہوں نے کہا کہ وہ فلم کو سپورٹ کرنے آئے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر نے کہا کہ اس فلم کے بارے میں ان کی امیدیں بہت زیادہ ہیں۔

 فلم دیکھنے والے افراد اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں ۔ کئی کا کہنا ہے کہ یہ فلم بھارتی فلم ”چک دے انڈیا “ جیسی ہے ۔ جس فلم میں معروف اداکار ”شاہ رخ خان“ انڈین ویمن ہاکی ٹیم کو ہاکی سیکھاتے اور ولڈ کپ جیتنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی افراد کا کہنا ہے کہ فلم میں شاہد آفریدی کا کردار نبھانے والے اداکار شاہد آفریدی سے زیادہ حفیظ جیسے لگتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ فلم بنانے سے قبل اس موضوع پر مکمل تحقیق نہیں کی گئی ، جس کے باعث فلم میں بہت سی کمیاں رہ گئی ہیں۔ حوصلہ افزائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فلم پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئی بلندیوں پر لے جائے گی ۔ البتہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو حکومت کے ساتھ کی بھی ضرورت ہے۔

بے شک اس فلم نے پاکستانی فلم انڈسٹری پر طاری جمود کو توڑ دیا ہے۔ ان ساری باتوں کے علاوہ میں یہی کہوں گی کہ پاکستانی فلم انڈسٹری بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس موقع پر بننے والی فلموںکا موازنہ بھارتی اور ہالی وڈ میں بننے والی فلموں کے ساتھ کرنے کے بجائے اگر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یقینی طور پر ہمارے ہاں لاجواب فلمیں بن سکتی ہیں جو کہ ہالی اور بالی وڈ کو ٹکڑ دے سکتی ہیں۔ تنقید کرنے سے قبل یہ سوچ لینا بہتر ہوگا کہ جن حالات اور وسائل کی موجودگی میں ہمارے ہاں فلمیں بن رہی ہیں اس کے حساب سے یہ بہترین ہیں۔

”جوش“۔۔۔۔ Film Review






”جوش“فلم میں ایک عورت کو دو حصوں ( امیر اور غریب) میں بٹی سوسائٹی کے خلاف جدوجہد کرتے دکھایا گیا ہے۔ فلم میں پاکستانی صوبے سندھ کے اندرون حصے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جہاں جہالت ڈیرے جمائے ہوئے ہے، جہاں سے علم کی روشنی کوسوں دور ہے ، وہاں رہنے والے افراد کو نہ صحت کی بنیادی سہولیات میسر ہیں نہ کوئی آسائش ، بلکہ اس کے بر عکس ان پر ایک جابر رہنما مسلط کر دیا گیا ہے جو اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ کسی طرح بھی ان لوگوں تک تازہ ہوا کا جھونکا نہ پہنچ جائے جس سے ان کو غلامی سے نکل کر کھلی ہوا میں سانس لینے کا خیال آ جائے۔

ان لوگوں کی آزادی صرف 14 اگست کے دن تک محدود ہے،اس دن یہ لوگ 2 روپے کا پاکستانی جھنڈا خرید کر چھاتی پر لگاتے ہیں ، صرف 2 روپے میں آزادی منانے والے یہ لوگ آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں، یہاں انسانوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک ہوتا ہے اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا، کیونکہ وہ آزادی لفظ کے مفہوم سے انجان ہیں۔ انہیں صاف اور گدلے پانی کا فرق معلوم نہیں ۔ یہ لوگ آزادی کی اتنی بڑی قیمت چکا چکے ہیں کہ اب ان کے پاس کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔

مرکزی کردار میں” آمنہ شیخ“فاطمہ کے کردار میں نظر آئیں جو کہ ایک ثابت قدم اور مخلص استانی ہے۔ اس کی زندگی اس وقت بکھر جاتی ہے جب اس کی نصرت بی ،آیا (نائلہ جعفری) اچانک لاپتہ ہو جاتی ہیں۔ آمنہ شیخ( فاطمہ ) سماج کے رحم و کرم پر رہنے کے بجائے اپنا راستہ خود چنتی ہے وہ معاشرے اور خاندان کے خلاف جا کر اپنی کمشدہ نصرت بی کو تلاش کرنے نکل پڑتی ہے۔ اس کی کی آیا کی گمشدگی کا ذمہ دار اس ضلع کا رہنما۔۔۔۔(خضر خان نظامی) ہوتا ہے جو اس کی زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔فاطمہ اس گاﺅں کے لوگوں کو نیا وژن دیتی ہے۔ جہاں کے بجے الف اللہ اور بے بندوق سیکھ چکے ہیں وہاں فاطمہ الف اللہ اور الف آزادی کے مفہوم کو متارف کرواتی ہے ، وہ انہیں آئی فارانڈیپنڈنس اور یو فار یونیٹی سیکھاتی ہے۔ فلم کی آگے کی کہانی میں فاطمہ اس کا خاندان اور پورا گاﺅں اس جاگیر دارانہ رب کے خلاف کھڑے ہو کر اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔

فلم میں ہیرو ہیرون سے زیادہ فلم کی کہانی ، تھیم اور اداکاری پر توجہ دی گئی ہے جو کہ اس فلم کا مثبت نقطہ ہے۔ فلم میں ادا کیے جانے والے ڈائیلاگ بہترین ہیں ۔ آمنہ شیخ، موہیب مرزا، خالد ملک، خضر خان نظامی، عدنان شاہ ٹیپو، نائلہ جعفری ، سلیم میراج، نوین وقار اور دیگر کی اداکاری بہترین ہے۔ پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے منجھے ہوئے اداکاروں کی اداکاری فلم کی اصل جان ہے۔ ان میں خضر خان نظامی کی ٹھہری ٹھہری البتہ رعب دار اداکاری کے ساتھ ساتھ آمنہ شیخ ، موہیب مرزا، عدنان شاہ ٹیپو، نائلہ جعفری اور خالد ملک کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
آمنہ شیخ اور موہیب مرزا جو حقیقی زندگی میں بھی جیون ساتھی ہیں ۔ یہ باکمال جوڑی چھوٹے پردے پر اپنی کامیابی کی مہر ثبت کرنے کے بعد اب بڑے پردے پر دھوم مچا رہی ہے۔ اس پر جوش جوڑے نے اپنی گزشتہ فلم ”لمحہ“ سے نیو یارک فلم فیسٹیول کا میلہ لوٹ لیا تھا۔ اسی فیسٹیول میں فلم ”لمحہ“کو بہترین فیچر فلم ایوارڈ ، بہترین آڈینس ایوارڈ اور بہترین اداکارہ ایوارڈسے نوازا گیا تھا۔

 فلم کی موسیقی ”شاہی حسن “ ، ”منیش جج“اور ”نوری لودھی آف انڈس ولڈ میوزک“نے ترتیب دی ہے۔ پس منظر موسیقی سمیت ”علی عظمت “ کا نغمہ ”نا رے نا“ اور ”محبت کا جنون “جذباتی گانے ہیں۔ اس فلم کو لندن میں ہونے والے انڈئن فلم فیسٹیول میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
فلم ”جوش“ ایک امید ہے اور ہر لحاظ سے اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے،چاہے وہ پاکستان کی بے جان فلم انڈسٹری ہو یا پھر اندھیرے اور ان دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے لوگ ہوں۔

فلم کی ڈائریکٹر ”پروین بلال “کا کہنا ہے کہ’ فلم چھ سال کے طویل عرصہ کی جدوجہد کے بعد مکمل ہوئی ہے لیکن اب اس کی تکمیل کے موقع پر میں انتہائی خوش اور پر جوش ہوں، فلم میں انسانیت ، محبت اور اتحاد کے جذبات دکھائے گئے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ فلم اصل زندگی کے واقعات پر مبنی ہے۔ اس فلم کو ایمانداری سے ان لوگوں کی یاد میں بنایا گیا ہے جنہوں نے حصول آزادی کیلئے خون ، پسینہ اور آنسو بہائے۔ یہ فلم پاکستان کیلئے ایک پاکستانی کی جانب سے بنائی گئی ہے۔




Saturday 14 September 2013

ووڈ پینلنگ....Wood Panneling...Home Decore...



اپنے گھر کا خواب ہر کوئی دیکھتا ہے ۔ ایک مرتبہ گھر بن جائے تو اس کی سجاوٹ کا بیڑا گھر کے باسی اپنے سر اٹھا لیتے ہیں، چھوٹے گگو سے لے بڑی آپا ہوں یا پھر گھر کے بڑھے بوڑھے سب ہی مشورے دے کر اس عمل میں حصہ ڈالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ البتہ ہم جانتے ہیں کے خاتون خانہ گھر کی سجانے کیلئے سب کے اوٹ پٹانگ اور سیدھے الٹے مشوروں سمیت ہمارے مشوروں پر بھی کان دھرتی ہوں گی۔
 اسی لیے گھر کے انٹیرئر کے بہترین انتخاب کیلئے آج ہم ایک اور طریقہ ڈھونڈ لائیں ہیں ۔ جیسا کہ آپ تصاویر سے اندازہ لگا سکتے ہیں اس طریقے کو”ووڈ پینلنگ “کہتے ہیں۔ ”ووڈ پینلنگ “ کے ذریعے گھر کے کسی بھی کمرے کی دیوار کو بہترین سلیقے سے سجایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے گھر کے انٹیرئر اور فرنیچر سے ملتے جلتے رنگ اور انداز کو پیش نظر رکھتے ہوئے ووڈ پینلز میں استعمال کی جانے والی لکڑی کا انتخاب کریں۔ 
مصبوط اور قدرتی لکڑی کے پینلز سے بنا یہ ڈئزائن عام سے کمرے کو لیوش اور خاص بنا دیتا ہے۔ووڈ پینلنگ اب ماڈرن فرنیچر کا حصہ بن چکا ہے جو کہ آرام دہ لیوش گھروں کیلئے بہترین انتخاب ہے۔ خوبصورت لکڑی کے بنے پینل ایک منفرد اور ورسٹائل میٹرئل ہے، جو کہ گھر کے وقار اور خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے گھر کا انٹیرئر ڈیزائن سٹائلش ، آرام دہ اور مہمان نواز لگتا ہے۔ 

 یہ کہنا غلط نہیں ہو گا ۔ پرانے وقتوں میں وہ گھر امیرانہ تصور کیا جاتا تھا جہاں مچھلیوں والا ٹینک ( aquarium) دیکھا جاتا تھا اور یہ وہ زمانہ ہیں جہاں گھر کے وقارکا اندازاہ اس میں ہونے والے لکڑی کے کام سے لگایا جاتا ہے۔ 

وال پینلنگ لکٹری کے مختلف اور منفرد حصوں کو جوڑ کرکمرے کو خاص ام خاض بنانے کیلئے استعمال کیا جا تا ہے ۔وال پینلز میں استعمال ہونے والا لکڑی کا ہر پینل الگ اور خاص انداز میں ڈیزائن کیا جا تا ہے۔ہر پینل بناتے وقت کمرے کی بناوٹ اور ماحول کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ 
وال پینلز میں بے شمار ورائٹی ہونے کے باعث اس کے استعمال سے کمرے کو مختلف تھیم دی جا سکتی ہے۔ یہ پینلز رنگین ہوں یا ایک ہی رنگ کے دونوں ہی بھلے لگتے ہیں۔ اس کی ایک قسم ”وال کلیڈنگ “بھی ہے۔ وال کلیڈنگ بھی وال پینلنگ کی ہی ایک مثال ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ وال پینلنگ ایک سادہ اور صوبر انداز ہے جبکہ وال کلیڈنگ کھردرا اور ابھرا ہوا ٹیکسچر ہے ۔ وال ڈیکوریشن کی یہ قسم باقی تمام اقسام میں سب سے زیادہ استعمال اور پسند کی جاتی ہے۔ وال کلیڈنگ نہایت سٹائلش اور مارڈرن طریقہ ہے ۔ 

وال پینلنگ کی دیکھ بھال بہت آسان ہے ، سمجھ لیں کے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ووڈ پینلز افقی اور عمودی دونوں طریقوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ انٹیرئر ڈیزائن کا ایسا طریقہ ہے جو کسی بھی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اسے ایک جگہ یا کمرے سے منسلک نہیں کیا جا سکتا ۔ آفس ، گھر ، دوکان، ریستوران ، کیفے، کینٹین ہو یا ٹی وی پروگرام کا سیٹ کسی بھی جگہ فکس کر کے اس کے صوبر پن سے کمرے کو دلکش بنایا جا سکتا ہے۔ ووڈ پینلنگ کو بار بار پینٹ یا صاف بھی نہیں کرتا پڑتا ، کیو نکہ یہ قدرتی لکڑی سے بنا ہوتا ہے اس لیے گھر کے گھر کے دروازے کھڑکیوں کی طرح پائیدار اور دیر پا ہوتاہے۔ 

گھر میں لکڑی کا استعمال برصغیر کی قدیب روایت ہے۔ گھر میں لکڑی کے استعمال کی یہ روایت کو آگے چلانے کیلئے ووٹ پینلنگ ایک اچھا طریقہ ہے۔یہ مفت مشورہ ہے جو ہم آپ کو دے رہئے ہیں۔ گھر میں اس کا استعمال بہت ساری جگہوں پر کیا جا سکتا ہے۔ ان تصاویر کی مدد سے آپ اپنے گھر کے نقشے اور بناوٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے بہترین جگہ کا انتخاب بخوبی کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ کمروں میں اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں ایک اور طریقے سے بھی گھر کے اندر جگہ دی جا سکتی ہے ۔ کمرے کی دیواروں کے علاوہ گھر کی وہ دیوار جو ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جاتی ہوئی مڑ کر کونہ بناتی ہے ۔ یہ کونہ بھی ووٹ پینلنگ کیلئے بہترین انتخاب ہے۔ 

اس طرز کی سجاوٹ سے آپ صوبر ، کلاسی اور ٹرینڈی انٹیرئر ڈیزائن اپنا کر سکتے ہیں ، کیسا بھی کمرہ ہو ، کمرے میں رہنے والے کازوق میٹاہو یا نمکین ، غصیلے اور شرارتی کے علاوہ فنکی اور بزرگانہ انداز بھی اسی طرز میں چھپے ہیں ، ذرا ذوق و شوق سے دھیان دیں ، گھر کی سجاوٹ کا حل اوپر دی گئی تحریر اور تصاویر میں سے ہی نکل آئے گا۔ 


ڈی - ڈے.....D-Day.....Film Review



بیس برس گزر گئے ممبئی دھماکوں کو لیکن اس کے زخم آج بھی تازہ ہیں ۔ فلم ”ڈی- ڈے“ کے مطابق ممبئی دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ آج بھی بھارت کے ہمسایہ ملک میں آزادانہ گھوم رہا ہے۔ جب بھی کبھی کہیں کوئی دھماکہ یا گولیاں چلتی ہیں تو بھارتی عوام کے ذہنوں میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ ہندوستانی حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات کیوں نہیں اٹھاتی۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ اگر امریکہ اپنے دشمن اسامہ بن لادن کو پکڑ سکتا ہے تو پھر بھارت اپنے نہایت مطلوب دشمن” داﺅد ابراہیم “کو کیوں نہیں پکڑ سکتا؟

اس کے علاو ہ جب بھی ہم ”زیرو ڈارک تھرٹی “جیسی دہشت گردوں پر مبنی فلمیں دیکھتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہمارا خون کھولنے لگتا ہے اور یہ سوچ آتی ہے کہ ہم ایسا کیا کریں کہ دہشت گردی سے جان چھوٹ جائے۔ڈائریکٹر ”نیکھیل ایڈوانی “بھی انہیں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس فلم کے ذریعے ہندوستانیوں کے غصے اور جذبات میں شدد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

فلم کی کہانی کچھ اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را “کے پاس پکی خبر ہے کہ بھارت کا انتہائی مطلوب دشمن اقبال سیٹھ ( رشی کپور) اس کے ہمسایہ ملک پاکستان کے شہر کراچی میں چھپا ہوا ہے۔ جسے پکڑنے کیلئے ”را“ چار انڈر کور ایجنٹس تیار کرتی ہے۔ جن میں رودھر پرتاپ سنگھ ( ارجن رام پال ) ، ولی خان (ارفان خان )، زویا رحمان ( ہما قریشی ) اور اسلم ( آکاش دھایہ ) شامل ہیں۔ اس آپریشن کا نام ہے ”Operation Gold Man“ رکھا جاتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اقبال کو پاکستانی خفیہ ایجنسی” آئی ایس آئی “اور اس کے اپنے گرو کی جانب سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

یہ چارو ایجنٹس مطلوب دشمن اقبال کی تلاش میں پاکستان جاتے ہیں جہاں کسی وجہ سے بھارتی حکوت اور خفیہ ایجنسی ”را“ان چاروں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے جس کے بعد ” آئی ایس آئی “ان چاروں کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔یہ ایجنٹس اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں یا گندی سیاست کا شکار ہو جاتے ہیں یہ فلم دیکھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے۔

فلم کی کہانی کچھ سچائی اور کچھ بناوٹی ہے۔ فلم ”کنٹریکٹ “ اور ”مکھبر “سے ملتی جلتی ہے البتہ اس فلم میں آپ کو دیکھنے میں کچھ زیادہ ملے گا۔
فلم میں کئی ایسے سین ہیں جنہیں آپ سانس روک کر دیکھیں گے، منفی پہلو دیکھیں تو ”شروتی حسن “ کا ٹریک فلم کی کہانی کی شدد کو کم کر دیتا ہے۔ جبکہ فلم کے دوسرے حصے میں جب ولن آسانی سے ہتھے چڑ جاتا ہے تو فلم تھوڑی فلمی لگتی ہے۔ کئی ایسے سحر انگیز سین بھی موجود ہیں جنہیں دیکھ کر آپ کے ہاتھ خود بخود تالیاںبجانے لگیں گے، جبکہ کچھ سینز کو دیکھ کر آپ مزید شش و پنج کا شکار ہو جائیں گے کہ اس سے آگے کیا ہونے والا ہے۔

فلم میں کیا گیا کیمرہ ورک بہترین ہے، فلم کے ایکشن سین کو کمال مہارت سے شوٹ کیا گیا ہے۔ عام طور پر ایسی فلموں میں موسیقی فلم پر منفی اسر ڈالتی ہیں لیکن اس فلم کے ساتھ ایسا نہیں ہوا شنکر احسان لوئے کی ترتیب دی گئی موسیقی نے فلم کے ایکشن اور ڈرامیڈک سینز کے ساتھ بہترین رنگ جمایا ہے۔ بیک گراونڈ میوزک اور ڈائیلاگ فلم کی جان ہیں ۔

فلم ”کل ہو نہ ہو“سے بہترین شروعات کرنے والے ڈائریکٹر نکھیل ایڈوانی نے اپنی آئندہ دو فلموں ”سلام عشق“اور” چاندنی چوک ٹو چاینہ “میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد ”ڈی- ڈے “کے ذریعے دوبارہ کم بیک کیا ہے۔

پرفارمنس کی بات کی جائے تو رشی کپور اس مرتبہ بہترین اداکاری سے بھی دوہاتھ آگے نکل گئے ۔ انہوں نے اپنے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے۔ ان کے بولے جانے والے ڈائیلاگ ، جیسے ”کراچی بند کر دو “ ، دنیا مجھے ٹیرر یسٹ سمجھتی ہے، جناب میں تو بزنس کرتا ہوں “ اور ” ٹریگر کھینج ، معاملا مت کھینج “ یاد رہ جائیں گے۔ دوسری جانب ارفان خان کی سحر انگیز اداکاری اور جذبات کے اظہار کے ذریعے آپ ان کے دکھ کو محسوس کر سکیں گے۔


ارجون رام پال اور ہماقریشی نے اپنا کردار انتہائی نفاست سے ادا کیا جبکہ شروتی حسن اپنے کردار میں خوبصورت نظر آئیں۔

یہ فلم ہندوستانیوں کے دہشت گردی سے چھٹکارہ پانے کے خواب کو پورا کرتی ہے اس لئے یہ ہر ہندوستانی کے دل پر اصر کرےگی اور جب بھی بھارت میں کہیں دہشت گردی ہو گی تو ہر ہندوستانی یہی سوچے کا یہ کاش یہ فلم ایک حقیقت بن جائے۔ امید کرتے ہیں ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسی فلم بنے جس سے باہر کی دنیا یو یہ تاثر جائے کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔

یہ جوانی ہے دیوانی.... Ye Jawani Hai Dewani .....Film Review






”یہ جوانی ہے دیوانی “اپنے عنوان کی طرح جوش ، ولولے ، خوابوں، جذبات اور احساسات سے بھر پور فلم ہے۔ ”یہ جوانی ہے دیوانی “فلم ڈائریکٹر ”ایان مکھر جی “کی دوسری فلم ہے جس میں انہوں نے اپنے بہترین ڈائریکٹر ہونے کا سکا منوانے کی کسر نہیں چھوڑی ۔ فلم کی کاسٹ ، موسیقی ، سٹوری ، ڈائیلاگ سے لے کر فلم کی لوکیشن تمام چیزیں آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔

مرکزی کردار نبھانے والوں میں رنبیر کپور ( کبیر اکاءبنی ) اور دپیکا پوڈوکون (نینا ) کے کردار میں نظر آئے ۔ کبیر اکاءبنی ( رنبیر کپور ) ایک منچلا نوجوان ہے ، جو آٹھ پہر جوش و جنون اور کچھ نہ کچھ کرنے کی جستجو میں مگن رہتا ہے۔ ایڈونچر ، پاگل پن اور تجسس اس کے خمیر میں گوندھا ہے۔ ابھی ( ادیتیا رائے کپور ) اور آدیتی ( کلکی کوئچلن ) اس کے بہترین دوست ہیں جو دوستی کہ ہر کسوٹی پر پورا اترتے ہیں اور اس موج مستی میں کبیر ( رنبیر کپور ) کا ساتھ دیتے ہیں۔ نینا ( دپیکا پوڈوکون ) ایک انتہائی سنجیدہ مزاج کی لڑکی ہے ،ایک ایسی میڈیکل کی طالب علم ہے جس کا ہنسی مزاح ، سیروتفریح سے کبھی پالا نہیں پڑا۔ نینا کی ملاقات کبیر اور اس کے گینگ سے ایک ٹرین میں ہوتی ہے، دوران سفر ان کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے اور نینا کبیر اور اس کے دوستوں کے ساتھ منالی جاتی ہے۔ اس سے قبل نینا اور کبیر سکول میں ہم جماعت رہ چکے ہیں۔


منالی کا سفر ختم ہو جاتا ہے لیکن منالی کا یہ سفر نینا کے صحرانما دل پر بارش کی پہلی بوند ثابت ہوتا ہے، تروتازگی ، مسرت اور جوش کا یہ طوفان جو ایک سفر نے اس کے اندربھرا ، اس کی خوشبو آٹھ سال تک نینا کے اندر اٹھکیلیاں کرتی رہتی ہے۔

آٹھ سال کے بعد قسمت دوبارہ ان چاروں نوجوانوں کو اکھٹا کر دیتی ہے، آٹھ سال کی اس طویل مدد کے بعد دو مختلف اور الگ الگ سمتوں میں جانے والے نوجوان( نینا اور کبیر ) کی بھلتی پھولتی دوستی محبت کی اوڑھنی اوڑھ لیتی ہے جس میں زندگی کے تمام رنگوں کا رس نچوڑ کر اسے مزید دلفریب بنایا گیاہے۔ مکمل طور پر محبت پر مبنی اس فلم کو دیکھ کر”ویلن ٹائن ڈے “کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ، جیسے ہر پھول میں سے محبت پھوٹ رہی ہو۔ اس محبت کے جذبے کی صیح ترجمانی کی ایک وجہ رنبیر اور دپیکا کی جادوئی کیمسٹری کا نتیجہ بھی ہے جس کا جادو ہر مرتبہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔

فلم دیکھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اگر اس سے قبل آپ رنبیر کپور کی اداکاری اور جادوئی شخصیت سے متاثر نہیں ہوئے تو یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں ، یہ فلم دیکھنے کے بعد رنبیر کپور کی سحر انگیز شخصیت آپ کے دل میں خاض جگہ بنانے میں کامیاب ضرور ہو گی۔ اس نوجوان اداکار میں اپنے پاپ دادا کا نام بالی وڈ میں زندہ رکھنے کے تمام عناصر موجود ہیں۔ دوسری جانب دپیکا پوڈوکون اپنی بیشتر فلموں کے پیش نظر اس فلم میں انتہائی الگ کردار میں نظر آئیں ، موٹے فریم والے چشمے اور میڈیکل کی کتابوں کو کھنگالتی اس لڑکی نے اپنے کردار سے بھر پور وفا کی ہے۔


میوزک ڈائریکٹر پریتم نے شاندار موسیقی مرتب دے کر اس
فلم کو چار چاند لگا دیئے ہیں ، جبکہ مادھوری دکشت کے دلفریب ٹھمکے اور چمکیلے رنگین لہنگے چولی والے آےٹم سانگ نے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔


مختصر ، ”یہ جوانی ہے دیوانی “ایک بڑا دھماکہ فلم ہے ، اگر اسے سال کی بہترین فلم کا درجہ دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس فلم نے سلمان خان کی فلم ”دبنگ ٹو “کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ، پہلے چاردنوں میں ہی باکس آفس پر 75 کروڑ سے زائد کا بزنس کر چکی ہے، جو کہ صرف شروعات ہے۔



Friday 13 September 2013

پولیس گیری ۔۔۔۔ Police Gerri .....Film Rview



امیتابھ بچن کی فلم زنجیر کے چور پولیس والے تھیم نے بالی وڈ فلموں کو ایک نیا رخ دیااور اس کے بعد بالی وڈ میں اس تھیم پر بہت ساری فلمیں بننے لگیں ۔ جن میں ”ستیا میں جتیا “، ”اردھ ستیا “نمایا ہیں۔ اسی فلمیں ملٹی پلیکس ایرا تک بنتی رہیں ، لیکن اس کے بعد یہ سٹائل ساوتھ انڈین فلموں میں ٹرانسفر ہو گیا ۔جس کے بعد ایکشن فلموں کے دلدادہ افراد نے ساوتھ انڈین ڈب فلموں کی طرف اپنا رحجان کر لیا۔اسی ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے فلم کاروں نے دوبارہ اسی طرز کی فلمیں بنانا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں” دبنگ“ ، ”سنگھم“ اور”راوڈی راٹھہور “ جیسی فلمیں بنیں۔



اگر آپ دھیان سے دیکھیں تو یہ ساری فلموں کی کہانی ایک جیسی ہے، ایک جیسا سٹائل ہے اور تقریبا سب ہی ساوتھ فلموں کے ری میک ہیں۔ لیکن انہیں مختلف بنایا ہے فلم کی ٹریٹ منٹ نے اور ان سب سے زیادہ ہیرو کا سٹارڈم ہے جو ایسی فلموں کیلئے بہت ضروری ہے۔ اب ان سب فلموں کی کامیابی کو دیکھ کر پرانے ایکشن ہیرو بھی ایسی فلمیں کرنے لگے ہیں جن میں اب سنجے دت بھی شامل ہو گئے ہیں۔ سنجے دت اپنے انڈر ولڈ ڈان ٹائپ کرداروں اور ایکشن فلموں کیلئے جانے جاتے ہیں۔

ان کی نئی فلم ”پولیس گیری“ ساوتھ کی ایک ہٹ فلم کا ری میک ہے اور اسے ” دبنگ“ ، ”سنگھم“ اور”راوڈی راٹھہور “ جیسی فلموں کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ ”پولیس گیری “کہانی ہے ”ڈی سی پی رودھر“ یعنی کے سنجے دت کی ۔ جس کا ٹرانسفر ہوا ہے جرم کے شہر ”ناگاپورم “میں ۔ڈی سی پی رودھر اس شہر سے گنڈا گردی ختم کر کے پولیس گیری کا راج رائج کرنے آتا ہے ۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ گبر سنگھ نے پولیس فورس جوائن کر لی ہے۔ وہ اپنے منفرد سٹائل کے ذریعے شہر سے جرم کا خاتمہ کرتا ہے۔ اس شہر سے جرم کا خاتمہ کرنے میں اسے کافی مسائل درپیش ہوتے ہیں ، شہر میں ہونے والے جرم کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ”ناگوڑی سوبڑئم “یعنی کے پرکاش راج کی جو کہ ایک طاوقت ور اور نڈر سیاست دان کے رول میں نظر آئے ہیں۔ یہیں سے ناگوڑی سوبڑئم اور ڈی سی پی رودھر کے درمیان بلی ، چوہے والا کھیل شروع ہوتا ہے جسے دیکھتے دیکھتے فلم اختتام پزیر ہو جاتی ہے۔

 فلم دیکھ کر آپ کو 1980 ءکی ہندی ایکشن فلموں کی یاد آئے گی۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو” دھرمیندر “کی ہٹ ایکشن فلم ”حکومت “ کی بھی یاد آئےگی۔ فلم کے شروعات میں کچھ اچھے ٹائم پاس مزاخیہ سین موجود ہیں ۔ سنجے دت اور پرکاش راج کے درمیان ہونے والے مکالموں پر بھی ہنسی آ جاتی ہے۔ البتہ فلم کی کہانی میں کسر ہونے کے باعث فلم بور لگتی ہے۔ فلم میں ڈالے جانے والے سپیشل افیکٹس ، رومانوی گانے اور کچھ ڈرامیٹک گانے بھی فلم کی اصل تھیم کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔ اس کے علاوہ فلم کی موسیقی بھی کچھ خاص نہیں ہے۔ ڈائریکٹر ”کے ایس روی کمار“ نے ساوتھ انڈیا میں خاصی اچھی تعداد میں ہٹ فلمیں دی ہیں۔یہاں ان کے پاس وہ ساری اشیاءموجود تھیں جنہیں استعمال کر کے وہ ”سنگھم “ اور ”دبنگ “جیسی اچھی فلمیں بنا سکتے تھے البتہ اس کوشش میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔

پرفارمنس کی بات کریں تو سنجو بابا اپنے اچھے دنوں کو واپس لانے کی کوشش میں ناکام رہئے ہیں، اس فلم میں وہ جسمانی طور پر بھدے اور آوٹ آف فارم نظر آئے ۔ ایکشن سین کرتے وقت انہیں انتہائی مشکل پیش آئی جس کے آثار ان کے شہرے پر صاف نظر آئے ۔ فلم کی ہیروئن ”پراچی دیسائی “کے سامنے سنجے دت انکل لگتے ہیں، جب بھی آپ اسے سنجے دت کے ساتھ دیکھتے ہیں تو آپ کو اس بیچاری لڑکی پر ترس آتا ہے۔ ساتھ ہی فلم کی ہیروئن خود پراچی دیسائی بھی کچھ خاص نہیں تھیں۔ پرکاش راج نہایت عمدہ اداکار ہیں ۔ فلموں میں ایک جیسے کردار ادا کرنے کے باوجود بھی ان کی اداکاری نئی کی نئی لگتی ہے۔ ان کے علاوہ ”منوج جوشی“، موکیش رشید“، ”گوگلی شرما“ کے کردار زیادہ نہیں ہیں۔ ”رجیت پردیل“، ”راج پال یادو “اور ”اوم پوری“اپنے اپنے کرداروں میں مناسب نظر آئے۔

اگر آپ ساوتھ انڈین ڈب فلموں کے فین ہیں تو آپکو ایسا ایکشن ڈرامہ ضرور پسند آئے گا لیکن اس فلم کو ”دبنگ“ یا سنگھم “ جیسا ہٹ مت سمجھیں۔یہ فلم سنیما لورز کیلئے بالکل نہیں البتہ اچھا ٹائم پاس ضرور ثابت ہو سکتی ہے۔

بھاگ ملیکھا بھاگ.........Bhag Malikha Bhag....Film review



”بھاگ ملیکھا بھاگ “ لیجینڈ اتھلیٹ ملیکھا سنگھ کی حقیقی زندگی پر مبنی فلم ہے جسے تین گھنٹے کی فلم میں سمویا گیاہے۔ فلم میں اتھلیٹ ملیکھا سنگھ کی کہانی بچپن سے شروع کی گئی ہے جب وہ ہندو پاک کی علیحدگی کے دوران اپنے گھر والوں سے بچھڑ جاتا ہے جس کا زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ جبکہ بیرو( سونم کپور ) سے پیار ہونے کے بعد اسے مقصد مل جاتا ہے تب وہ ایک عزت دار زندگی گزارنے کیلئے آرمی میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس دوران وہ اتھلیٹ بن جاتا ہے اور 400 میٹر ریس میں حصہ لیتا ہے اور کیسے اپنے وطن کا نام روشن کرنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے یہی فلم کی کہانی ہے۔




فلم میں فرحان اختر ملیکھا سنگھ کے روپ میں نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے یہ کردار نبھانے سے پہلے پورے 18 مہینے ٹریننگ لی تھی۔ کی گئی محنت سے انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر اتھلیٹ ملیکھاسنگھ کے کردار میں ڈھالا ہے ۔ فلم میں فرحان اختر کی متاثر کن جسامت سے لے کر ان کی پرجوش اداکاری تک سب کچھ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ فلم میں فرحان اختر کی اداکاری دیکھ کر حقیقی زندگی میں ملیکھا سنگھ کو ان پر فخر محسوس ہوگا۔ سونم کپور فلم میں بیرو کے کردار میں دیکھائی دیں گیں ، جو کہ ملیکھا کی محبت میں گرفتار ہے۔سونم کپور کی اینتری فلم شروع ہونے کے ایک گھنٹے بعد ہوتی ہے اور ان کا رول انتہائی مختصر ہے ۔ سونم گاوں کی چھوری کے کردار میں انتہائی معصوم اور خوبصورت نظر آئی ہیں۔

”بھاگ ملیکھا بھاگ “ کو ڈائریکٹ کیا ہے راکیش اوم پرکاش مہرا نے ۔ فلم میں بھاگنے ولے سین بہترین ہیں اور حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔ فلم کی موسیقی میوزک ڈائریکٹر سنکر کی جانب سے ترتیب دی گئی ہے۔ فلم کے گانے ”مسلوں کا جھنڈ “،انسپریشنل گانہ ”زندہ “ ،” میرا یار“ایک رومانوی گانہ ہے، جبکہ فلم کا بیک گراونڈ میوزک بھی انتہائی پرجوش ہیں۔

فلم میں ملیکھا بھاگتا تو بہت ہے لیکن فنش لائن تک پہنچتے پہنچتے تین گھنٹے نکل جاتے ہیں ، جی بالکل میں ہی کہنا چاہ رہی ہوں کہ فلم بہت لمبی ہے اور فلم کا پہلا حصہ بہت سست رفتاری سے آگے بڑھتا ہے۔فرحان اختر کا کہنا ہے کہ یہ ایک انٹرٹیننگ اور انسپائرنگ فلم ہے ۔ جی بالکل ان کا کہنا بالکل ٹھیک ہے ۔”بھاگ ملیکھا بھاگ “سے ہم بہت ساری انسپائریشن لے سکتے ہیں۔

 مجموعی طور پر اس فلم کو دیکھنے کی پانچ وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ پہلی وجہ فرحان اختر ہیں وہ اس لئے کہ ملیکھا سنگھ کے کردار کو پردے پر اتارنے کیلئے انہوں نے جو محنت کی یہ وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری وجہ فلم کے ڈائریکٹر راکیس اوم پرکاش کی ڈائریکشن ہے۔ کیونکہ ان کی یہ فلم ان کی گزشتہ فلم ”رنگ دے بسنتی “کے چار سال کے بعد آئی ہے۔ ان کی گزشتہ فلم کا جادو اب تک لوگوں کے ذہنوں سے نہیں اترا اسی لئے اب ان کی ان فلم کا انتظار بے چینی سے کر رہے تھے۔ اتھلیٹ ملیکھا سنگھ کی حقیقی زندگی کی دلچسپ کہانی اس فلم کو دیکھنے کی تیسری وجہ ہے جبکہ فرحان اور سونم کی جوڑی فلم دیکھنے کی چوتھی وجہ ہے۔ پانجویں وجہ اس فلم کی جاندار موسیقی ہے۔ اب اتنی وجوہات کے باوجود بھی یہ فلم نہ دیکھی جائے تو اس فلم کے ساتھ زیادتی ہی ہوگی۔


اس فلم کے بارے میں بالی وڈ کے کنگ خان ”شاہ رخ “خان کا کہنا ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد انہوں نے فلم کی کامیابی پر ڈائریکٹر راکیش کو فون کر کے مبارکباد پیش کی اور فرحان اختر سے کہا کہ فلم دیکھنے کہ بعد وہ ان سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔

Friday 6 September 2013

”کھڑکی دروازوں میں گلاس آرٹ کا استعمال“ .....Window Glass Art



گھر کی دیواروں میں لگے دروازوں اور کھڑکیوں کو دلکش انداز میں سجانے اورانٹیرئر میں خاصیت پیدا کرنے کیلئے سٹینڈ گلاس آرٹ کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گھر کے کھڑکیاں ، دروازے ، اونچے روشندان اور کبھی کبھار پور ی دیوار پر محیط شیشے کی کھڑکیوں پرا س قسم کا آرٹ انتہائی دلکش لگتا ہے۔

گلاس آرٹ کو مجموعی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں گلاس سپرے پینٹ ، فراسٹنگ گلاس اور سٹینڈ گلاس آرٹ شامل ہیں۔ گلاس سپرے پینٹ کے ذریعے آپ کسی بھی عام سے شیشے کو رنگین بنا سکتے ہیں۔ گلاس فراسٹنگ سے آپ اپنے گھر میں لگے کھڑکیاں اور دروازوں کے شیشوں کو نیم شفاف بنا سکتے ہیں جن سے آرپار نظر نہیں آ تااوردیکھنے میں بھی بھلے لگتے ہیں۔ اس تکنیک کو گھر کے کئی حصوں میں لگے شیشوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔جبکہ سٹینڈ گلاس آرٹ کے تحت آپ کسی بھی شیشے کو کینوس بنا کر اس پر فن پارہ تخلیق کر سکتے ہیں۔
اس گلاس آرٹ کا استعمال زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے ۔ دسویں صدی میں اس آرٹ کا استعمال چرچ ،کیتھیڈرل اور دوسری متعلقہ عمارتوں میں نظر آتا تھا۔ اس دور میںشیشوں پر ثقافتی نقش ونگارکو قصے کہانیاں سنانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ چرچ میں اس آرٹ کا استعمال روحانیت کے لحاظ سے بھی کیا جاتا تھا، ان کھڑکیوں سے نکلنے والی رنگین روشنی کے زیر اثر انسان اپنے معبود سے زیادہ قریب محسوس کرتا تھا۔

سٹینڈ گلاس ، فراسٹنگ اور گلاس سپرئے پینٹ دیکھنے میں انتہائی خوبصورت لگتے ہیں البتہ اسے بنانے میں کافی وقت بھی درکار ہوتا ہے اسی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ جبکہ موجودہ دور میں دوبارہ اس کی اہمیت اور قدر بڑی تیزی سے بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ اب پھر سے لوگوں نے اپنے گھر کے شیشے والے دروازوں اور کھڑکیوں کو گلاس آرٹ سے سجانا شروع کرد یا ہے۔ اب سٹینڈ گلاس آرٹ میں تھری ڈی آرٹ بھی شامل ہو چکا ہے۔اس آرٹ کے استعمال سے گھر کے انٹیرئر اورایگزٹیرئر کو دلکش اورجازب نظر بنایا جا سکتا ہے۔


سٹینڈ گلاس آرٹ ، فراسٹنگ یا گلاس سپرئے پینٹ کئی دہایوں سے گھر کی تربین و آرائش میں استعمال کئے جا رہئے ہیں اور یہ رواج کبھی پرانا نہیں ہوا۔ وقت کی قید سے بالاتر اس فن کو گھر کے کسی بھی حصے میں لگے شیشے کے دروازے یا کھڑکی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کی مدد سے آ پ اپنے گھر کے سونے کے کمرے، مرکزی کمرے، باورچی خانے، غسل خانے، چھت ، شیشے کے دروازوں والی الماری ، شیلف اور دیگر حصوں سمیت کئی جگہوں کو سجا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کیلئے مختلف اقسام کے بلب بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ دفتر ، کیفے، ہوٹل ، کالج ، لائبریری اور دیگر جگہوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی کمرے، آفس کے حصے یا پورشن کو الگ کرنے کیلئے بھی اس آرٹ کا استعمال بہترین ثابت ہو سکتا ہے ۔

یہ ڈیزائن سٹائلش بھی ہے ، کمرے میں گرمی کی شدد کو کم کرتا ہے اور الٹراوائلٹ شواﺅں کو بھی کمرے میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ اس کے استعمال سے ہر قسم کی تھیم اپنائی جا سکتی ہے۔ رنگ برنگے آرٹ کا نمونہ ہو یا جنگل کی سی ہریالی اور پھول پودے، ڈیزائن سادہ سفید ہوں یا کوئی شکل یا ابسٹریکٹ بنوالیں تمام ہی آرٹسٹک لگتے ہیں۔


اس قسم کا منفرد آرٹ آپ کے گھر کو ایک آرٹ گیلری جیسی خوبصورتی بخشتا ہے۔ جو بھی آپ کے گھر آئے گا وہ اس یونیک آرٹ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ سٹینڈ گلاس آرٹ دیکھنے میں بھدا لگتا ہے، ایک عرصہ کے بعد اس کے رنگ برے لگنے لگتے ہیں ۔ اس رائے کے باوجود میں یہی کہوں گی کہ اس آرٹ کا زمانہ کبھی پرانا نہیں ہوگا ،جسے دن کے وقت سورج اور رات کے وقت مصنوعی روشنیوں سے جگمگایا جا سکتا ہے۔ اس سے نکلنے والے خوبصورت رنگ اور روشنی انتہائی دلفریب لگتے ہیں ۔ خاص طور سے جب سورج کی روشنی ان کھڑکیوں اور دروازوں سے چھن کر اندر آتی ہے تو دیکھنے والے کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ یہ آنے والے مہمانوں کو ایک دوستانہ ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے ذوق و شوق سے بھی آشنا کرواتا ہے۔

”پختہ برک وال انٹیرئر “ Brick Wall Art



مہنگائی کے اس دور میں گھر کی تزئین و آرائش کیلئے رقم نکالنا انتہائی مشکل کام ہے اس کے ساتھ ساتھ اس جدید دور میں گھر کی خوبصورتی اور معیار کو برقرار رکھنا اور اسے سجانا سنوارنا بھی ضروری ہے۔ گھر کی صفائی ستھرا ئی کے ساتھ ساتھ بہترین سجاوٹ اور سامان کی ترتیب عورت کے سلیقے اور ذوق کی ترجمانی کرتی ہے۔ایسے میں گھریلو بجٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر کی دیواروں کو مہنگی پینٹنگز اور امپورٹڈ ڈیکوریشن پیس سے سجانے کے بجائے بچت اور سجاوٹ ساتھ ساتھ کی جا سکتی ہے اور اس کا طریقہ ہے پختہ سرخ اینٹوں کی دیوار بنوا کر جدت بھرا انٹیرئیر ڈیزائن ۔


گھر کی دیواروں یا ہال کمرے میں موجود پلرز کو سادہ اینٹوں سے سجا کر گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ گھر کے مرکزی کمرے یا بیڈ روم کی ایک دیوار کو سجانے کیلئے اینٹوں کے ٹیکسچر کے وال پیپر یا اصلی اینٹو ںکو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصلی اینٹوں کے ٹیکسچر سے زیادہ سادہ اور فنکارانہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ سوبر رنگ کے پینٹ والی دیواروں کے ساتھ اینٹوں والی کھردری دیوارمنفرد اور پر کشش امتزاج کا منظر پیش کرتی ہے۔جس سے آپ کا کمرہ دلچسپ اور مختلف دکھائی دیتا ہے ۔گھر کی دیواروں میں اینٹوں کا استعمال آپ بہت سے طریقوں سے کر سکتے ہیں ، ان میں اینٹوں کے ٹیکشچر کے بنے وال پیپر بھی شامل ہیں اور کھردری اور نا ہموار اینٹیں بھی شامل ہیں جنہیں ٹیڑھے میڑھے ہونے کے باعث خراب سمجھ کر گھر کی دیواروں میں نہیں لگایا جاتا۔ یہ اینٹیں اکیلے ہی آپ کے کمرے کے حسن میں اضافہ کرنے کی ساری ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں۔


گھر بناتے وقت مستری اچھی ا ور اول درجے کی اینٹ گھر کے باہر والی دیواروں میں استعمال کرتا ہے کیونکہ کہ گھر کے اندر والی دیواریں دبیز پلستر اور پینٹ کے نیچے چھپ جاتی ہیں ۔ لہٰذا” برک وال انٹیریئر“کیلئے ناہموار اینٹوں کا استعمال گھر کے اندر بہترین طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ ان پر اگر سفید یا شیڈڈ پینٹ کر دیا جائے تو یہ اپنی مثال آپ کمرے کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔ جبکہ بغیر پینٹ کے اینٹوں والی دیوار لیونگ روم ، بیڈ روم ، ڈائننگ روم اور گھر کے برآمدے میںبنائی جاتی ہے۔ لیکن اب اس میں کچن اور باتھ روم بھی شامل ہو گئے ہیں۔

کمرے کی دیوار کو اینٹوں سے سجانے کیلئے کسی ایک دیوار کا انتخاب کرنا چاہیے ، ایسی دیوار جس میں کوئی کھڑکی یا دروازہ نہ ہو، کمرے کی سب سے بڑی دیواراس انتخاب کیلئے بہترین ہے۔ اس طرح کے ڈیزائن کیلئے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کھردری اینٹوں کا استعمال ایک دیوار سے زیادہ پر نہ کیا جائے ۔ ورنہ یہ منفرد انٹیریئرڈیزائن کے بجائے بھدا دکھائی دے گا۔


اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ اینٹوں والی دیوار یا پورشن کے آس پاس باقی دیواروں پر ہلکے رنگ کا پینٹ کیا جائے، اس سے خاص اینٹوں والا پورشن نمایا ں ہوگا۔ اینٹوں والی دیوار والے کمرے میں زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ کمرے میں اندھیرا محسوس ہوتا ہے ، اس سے نجات پانے کیلئے اینٹوں کے ٹیکسچر کا انٹیریئر ایسے کمرے میں کرائیںجس میں زیادہ کھڑکیاں ہوں ۔ اس امر کا خیال رکھیں کہ گھر کے اندر اینٹوں کے ٹیکسچر کی دیوار یا پورشن بنوانے کیلئے دیواروں کی لمبائی اور سمت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اس فیصلے کا بہترین کلیہ روشن اور وسیع دیوار کا انتخاب ہے ۔

 اینٹوں کے ٹیکسچر کی دیوار کا ڈیزائن ایسا نہیں کہ ایک سیزن اس کا فیشن ہے اور اگلے سال فیشن بدل گیا بلکہ دیواروں کی سجاوٹ کا یہ فیشن کبھی پرانا نہیں ہوتا ، اس لئے اسے آوٹ ڈیٹیڈ ہونے کے فکر بغیر اپنایا جا سکتا ہے۔

Thursday 22 August 2013

گھن چکر ۔۔۔Ghanchakar...Film Review


تجسس ایک ایسا ہتھیار ہے جسے زیادہ تر کرائم ،تھریلر یا پھر سیاسی فلموں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ البتہ کئی بور فلمیں بنانے والے ڈائریکٹر اس تجسس کواپنی فلم کی جان سمجھتے ہیں ۔ یہی حال ہوا ہے اس ہفتے کی ریلیز فلم” گھن چکر “ کا جو ایک مکمل مسٹری فلم ہے۔ اس فلم میں تجسس کے درمیان کبھی کبھی کامیڈی بھی نظر آ جاتی ہے۔


”گھن چکر “ فلم میں سنجو یعنی عمران ہاشمی ایک ایکسپرٹ چور ہے ۔ کریمینل مائنڈ سنجو جرم کی دنیا کو چھوڑنا چاہتا ہے اور یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایک بڑی سی بینک ڈکیتی کر کے بہت سارا پیسہ آنے کے بعد جرم کی دنیا کو خیر باد کہہ دے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ آرام و سکون کی زندگی گزارے گا۔ سنجو اپنے دو ساتھی مجرموں پنڈتھ ( راجیش شرما) اور ادریس ( نمت داس ) کے ساتھ مل کر ایک بینک لوٹتے ہیں ۔ تین مہینے بعد جب وہ لوٹ کے مال کے حصے کرنا چاہتے ہیں تو سنجو پنڈتھ اور ادریس کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک دماغی بیماری ( میموری لوس ) کا شکار ہو جاتا ہے۔ جبکہ پنڈتھ اور ادریس سنجو کی بیوی نیتو ( ودیا بالن ) کے ساتھ مل کر سنجو کی یاداشت واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ سنجو نے لوٹی ہوئی رقم کہاں رکھی ہے۔ فلم کی ہیروئین نیتو ( ودیا بالن) ایک ہٹی کٹی پنجابن ہاوس وائف ہے۔ جسے لگتا ہے کہ وہ ہر چیز کے بارے میں سارا کچھ جانتی ہے۔ فیشن کی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو فیشن آئی کان سمجھتی ہے۔

فلم کی کہانی یقینی طور پر مختلف اور غیر معمولی ہے۔ فلم کی شروعات میں کئی کمال اور دھمال کامیڈی سین ہیں جن پر ہنسی بھی آتی ہے۔ لیکن ایک وقت گزر جانے کے بعد کہانی بور لگنے لگتی ہے۔ فلم کی سٹوری آگے بڑھنے کیلئے اپنے یونیک کلائی میکس کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے اور جب فلم کا کلائی میکس آتا ہے تو بس فلم خود گھن چکر ہو کر رہ جاتی ہے۔


امیت ترویدی کی موسیقی اچھی ہے ۔ ”لیزی لیگ “ اور ”اللہ مہربان “فلم کے بہترین گانے ہیں جبکہ مرکزی گانا سن کر بھی کئی لوگ جھومنے لگتے ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر راج کمار کی آخری دو فلمیں ”آمر “ اور ”نو ون کیل جیسیکا“ بھی اپنے آپ میں منفرد فلمیں تھیں ۔ اسی کے ساتھ” گھن چکر“ بھی ایک منفرد قسم کی کامیڈی ، مسٹری فلم ہے۔ جس میں کبھی کامیڈی مسٹری میں کھو جاتی ہے اور کبھی مسٹری کامیڈی میںگم ہو جاتی ہے۔ فلم کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پندرہ منٹ کی فلم کو گھسیٹ گھسیٹ کر دو گھنٹے کا بنا دیا ہے۔

پرفارمنس کی بات کریں تو عمران ہاشمی اس مرتبہ کچھ الگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔جبکہ ودیا بالن فلم میں ایک شرلی کی طرح نمودار ہوئیں اور بھر فلم میں کمزور کردار کے باعث بجھ گئیں۔ فلم کی مرکزی جوڑی عمران اور ودیا اپنی گزشتہ فلموں ”ڈرٹی پکچر “ اور ”عشقیہ“میں مظبوط کردار اور لاجواب ایکٹنگ کے باعث عوام کی توقعات بڑھا چکے ہیں جن توقعات پر اس مرتبہ وہ پورے نہیں اترے۔ کل ملا کر دیکھاجائے تو اس فلم کے پہلے حصے میں کامیڈی نے جان ڈالی ہے ، جبکہ دوسرا حصہ تجسس میں کھو کر خود تجسس بن گیا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلم بری نہیں ہے لیکن کچھ خاص بھی نہیں ہے۔ بہر حال فلم کی کہانی سست رفتار ہونے کے باعث اسے فارورڈ کر کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

”یملا پگلا دیوانہ- ٹو“۔۔۔۔۔ Yamala, Pagala, Dewana- 2



”یملا پگلا دیوانہ - ٹو“ بالی وڈ کی کامیاب فلمی فیملی اور دیول باپ بیٹوں کی ایک ساتھ تیسری فلم ہے۔ 80 ءکی دہائی کے سپر اسٹار ہیرو دھرمیندر ا جی اپنے بیٹوں سنی اور بوبی دیول کے ساتھ دکھائی دتے ہیں تو سنیما ہال تالیوں سے گونچ اٹھتا ہے۔ سنگیت سیوانتھ کی ڈائریکشن میں بنی یہ فلم دیول خاندان کی جانب سے پروڈیوس کی گئی ہے۔ دیول خاندان سب سے پہلے 2007 ءمیںایک جذباتی فلم ”اپنے “اور 2011 ءمیں ”یملا ، پگلا ، دیوانہ “میں اکٹھے کام کر چکے ہیں۔

ایکشن ، کامیڈی اور رومانس پر مبنی یہ فلم اسکاٹ لینڈ میں شروع ہوتی ہے اور بنارس سے ہوتی ہوئی برطانیہ میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔فلم کی موسیقی میوزک ڈایئریکٹر ز شارب صابری، طوشی صابری اور سچن گپتا نے ترتیب دی ہے۔ فلم کی بنیادی کہانی صرف اتنی ہے کہ ، دھرم سنگھ دھلون (دھرمیندراجی ) اور اس کا بیٹا گجودھر عرف قیو(بوبی دیول )بنارس میں جعلی سادھو بن کر لوگوں کا مال ٹھگ لیتے ہیں ، پول کھلنے پر برطانیہ ہجرت کر جاتے ہیں اور یہاں نئے شکار کی تاک میں نائٹ کلب کے مالک یوگی راج کھنہ (انو کپور ) کو لوٹنے کی غرض سے اس کے پاس رہنے کیلئے جاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ مسٹر کھنہ کا پہلے سے ہی دیوالیہ نکل چکا ہے۔

 اس مشکل میں دھرم سنگھ دھلون کا دوسرا بیٹا پرم ویر ( سنی دیول ) جو کہ ایک ایماندار اور صالح قرض وصولی کا ایجنٹ ہے ۔ یہ کام اپنے انوکھے انداز میں کرتا ہے۔اس کا طریقہ ہے کہ ابتدا میں نادہندگان کو پھول پیش کر تا ہے البتہ بات نہ بننے پر اپنا ڈھائی کلو کا ہاتھ استعمال کرتا ہے۔ پرم ویراپنے باپ ،بھائی ، مسٹر کھنہ اور اس کے نائٹ کلب کو تمام مشکلات سے نکال کر دوبارہ بحال کرتا ہے۔ اس عرصہ میں دھرم سنگھ دھلون کے دونوں بیٹے گجودھراور پرم ویرمسٹر کھنہ کی دونوںبیٹیوں کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اور پھر یو ں ہوتا ہے کہ ان کے عشق کی وجہ سے ہی دھرم سنگھ دھلون اور اس کے دونوں بیٹے مزید مشکلات کا شکارہو جاتے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ فلم کی کہانی کے بارے میں اس سے زیادہ کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اس فلم میں ہیروئن کے طور پر کریس ٹینا اور نیہانے اپنے اپنے کردار نبھائے ۔


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلم ڈائریکٹر اور دیول خاندان ”یملا پگلا دیوانہ “کے سیکوئیل کومزاحیہ اور دلچسپ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ فلم نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ تو کر لیا لیکن اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ دھرمیندراجی اور دیول برادرز کی اداکاری بھی تسلی بخش نہیں تھی، اس کے ساتھ ساتھ فلم کی بوگس کہانی اور ڈائیلاگزبھی اس کی ناکامی کی وجہ بنے ہیں۔

 فلم میں بولے جانے والے مضحکہ خیز جملے، سنی دیول کی شیر انداز دھاڑ ،اس کے (بن مانس )بندر کی بے تکی حرکات اور اداکاری نے شائقین کو متاثر نہیں کیا، البتہ مایوس ضرور کیا۔ اس سے بہتر یہی تھا کہ ”یملا پگلا دیوانہ “کا سیکوئیل نہ بنایا جاتا ، کیونکہ یہ اصل سے بھی بدتر ہے ۔ فلم کی موسیقی کو تولا جائے تو مرکزی گانے کے علاوہ کوئی ایسا گانا نہیں جسے بار بار گنگنایا جا سکے ، تمام گانے عام اور ناقابل ذکر ہیں۔


فلم بینوں نے ”یملا پگلا دیوانہ- ٹو“ کو ایک اوسط فلم قرار دیا ہے جس میں پنجابی ٹھاٹھ باٹھ تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی کمیاں موجود ہیں۔ دیول خاندان کی بری اداکاری سمیت خواتین اداکاراوں کا کردار سمجھ سے باہر ہے ۔

رلیز کے بعد سے ”یملا پگلا دیوانہ- ٹو“اپنے پہلے ہفتے میں 22 کروڑ کا بزنس کر چکی ہے ۔ تاہم لگتا کہ اس بزنس کی وجہ بھی یہ فلم نہیں بلکہ دیول خاندان کی گزشتہ فلمیں ہیں جنہیں شائقین نے پسند کیا تھا اورانھی کی وجہ سے یہ فلم دیکھنے پہنچ گئے ۔ کیونکہ اس سیکوئیل میں تو دھرمیندر ا جی اور دیول برادران کا جادو چل نہیں سکا ہے۔



Wednesday 21 August 2013

Chennai Express, Film Reviewچینائی ایکسپریس ۔۔۔ فلم ریوو۔۔۔


اس ہفتے کی رلیز فلم ”چینائی ایکسپریس “ واقعی میں ایک ایکسپریس ہے یا پھر ایک عام ٹرین ہے یہ جاننے اسے اپنے ترازو میں تولتے ہیں۔ فلم کی کہانی ہے چالیس سالہ روہول ( شاہ رخ خان )کی جو کہ ابھی تک کنوارہ ہے۔ راہول یتیم ہے اور اس کی پرورش اس کے دادا نے کی ہے۔


راہول اپنے داد سے بہت پیار کرتا ہے اور انہیں کی دیکھ بھال کیلئے اس نے ابھی تک شادی نہیں کی ۔ داد کی وفات کے بعد ان کی آخری خواہش کے مطابق راہول ان کی استھیوں کو رامیشورم میں بہانے کیلئے چینائی ایکسپریس سے چینائی چلا جاتا ہے ۔ البتہ قسمت کو یہ منظور ہوتا ہے کہ وہ ایک تامل لڑکی مینا یعنی کے (دپیکا پودوکون ) سے ملے ۔مینا جو کہ گھر سے بھاگ آئی ہے ۔راہول کو بعد میں احساس ہوتا ہے کہ مینا ایک ڈان دوگیشوارا (ستیا راج ) کی بیٹی ہے۔ مینا کے والد اس کی شادی ایک دیو نما لڑکے ” تانگا ولی“(نکیتن) سے کرنا چاہےے ہیں تاکہ ڈان ”دوگیشوارا “اپنے گاﺅں” کومبن “کے ساتھ ساتھ پڑوسی گاﺅں پر بھی حکومت کر سکے۔ چینائی ایکس پریس میں مینا کے ساتھ سفر کے دوران سفر کے دوران حالات کچھ ایسے ہو جاتے ہیں کہ روہول نہ چاہتے ہوئے بھی مینا کے ساتھ اس کے گاﺅں چلا جاتا ہے ۔

”جب تک ہے جاں “میں سنجیدہ کردار نبھانے کے بعد اس فلم میں شاہ رخ خان آپ کو ایکشن ، رومانس کے ساتھ ساتھ کامیڈی کرتے بھی نظر آئیں گے ، لیکن یہ بات تو ہم بھی جانتے ہیں اور سارا گاﺅں بھی جانتا ہے کہ شاہ رخ خان کی کامیڈی میں اتنا دم نہیں ہے جتنا دم ان کے رومانوی کرداروں میں نظر آتا ہے ، اسی لئے فلم میں کئی جگہ پر کامیڈی سین کرتے ہوئے انہیں مشکل پیش آئی جس کا اندازہ فلم دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔کئی سینز میں وہ مذاخیاں لگتے ہیں البتہ سنجیدہ اور جذباتی سینز میں ان کی اداکاری کمال ہے۔

دپیکا کی بات کی جائے تو اس فلم میں ان کا کردار نہایت مختلف ہے۔ ساﺅتھ انڈین تامل لڑکی کے کردار میں ان کا تلفظ اور انداز بہترین ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر فلم میں دپیکا اپنی شخصیت کے الگ رنگ سے متارف کرواتی ہیںجو کہ ان کی خاصیت بھی ہے۔

فلم ”اوم شانتی اوم “کے بعد شاہ رخ خان اور دپیکا پوڈوکون چھ سال کے بعد ایک ساتھ نظر آئے ہیں۔ جبکہ روہیت شیٹھی اور شاہ رخ خان پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کر رہئے ہیں۔ جس کے باعث فلم بینوں کی امیدیںبہت زیادہ ہیں۔ فلم میں دپیکا اور شاہ رخ خان کی کیمسٹری اچھی ہے اور اس جوڑی نے ساتھ میں کچھ نہایت ہی عمدہ سین کیے ہیں۔

”گول مال سیریز “اور ”بول بچن “فلموں کے بعد روہیت شیٹھی کی یہ پہلی فلم ہے جس میں اجے دیوگن نہیں ہیں۔بے شمار کامیڈی ، ہائی وولٹیج ایکشن اور ہوا میں اڑتی کاریں جو کہ روہول شیٹھی کی فلموں کی جان ہے ۔ اس فلم میں بھی اس قسم کا مصالحہ کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے۔ فلم مکمل چور پر راہول شیٹھی سٹائل فلم ہے جس میں ”دل والے دلہنیاں لے جائیں گے“ سٹائل کا ہلکا سا تڑکا لگایا گیا ہے۔

فلم کے آوٹ دور سین بہترین ہیںاور ایکشن سینز صوبر ہیں ۔ فلم کی موسیقی ”وشال ، شیکھر “ نے ترتیب دی ہے۔ فلم کا مرکزی گانا ایک اوسط گانا ہے۔” ون ، ٹو، تھری ، فور“ میں تھوڑا دم ہے ، ”تتلی “ایک رومانوی گانہ ہے، مگر ان میں بہترین ”لونگی ڈانس “ ایک مذاخیاں گانا ہے ، جسے یو یو ہنی سنگھ نے گایا ہے۔ گانے میں گائے جانے والے بول بے تکے ہیں اس کے باوجود یہ گانا تیزی سے مشہور ہو رہا ہے اور لوگوں کی پلے لسٹ میں جگہ بنا رہا ہے۔

فلم کا سب سے بڑا ڈرا بیک فلم کی کہانی ہے ۔ فلم کی شروعات بہترین ہے البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلم کی کہانی کے باعث اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ فلم کی خوبصورت لوکیشنز اور ساﺅتھ ٹچ دیکھنے کیلئے چینائی ایکسپریس ضرور دیکھیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ شاہ رخ خان اور دپیکا کے فین ہیں تو فلم دیکھنا بنتا ہی ہے ۔










Tuesday 20 August 2013

اندڈور جھولا ۔۔۔ ہوم ڈیکور ۔۔۔۔Indoor Swing, Home Decoration



بچپن کا ساتھی جھولا جسے دیکھ کر ہم اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتے ہیں ، جسے جھولتے جھولتے بچہ کب جوان ہو جاتا ہے اس کا احساس اسے خود بھی نہیں ہوتا۔ ماں کی گود کا بہترین متبادل یہ جھولا بڑوں کیلئے ماڈرن فرنیچر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ گھر میں سجاوٹی فرنیچر کے ساتھ اس جھولے کو جدید اشکال میں ڈھال کر گھر کے انٹیرئر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

پہلے زمانوں میں جھولا تقریبا ہر گھر میں پایا جاتا تھا۔ اس زمانے کے وسیع و دراذ صحن اوراس صحن میں لگے بڑے سے درخت کی سب سے موٹی شاخ کو بچے اپنے چھولے کیلئے چن لیا کرتے تھے۔ لیکن اب اس طرز کے گھر اور اس انداز کے وسیع و عریظ صحن اب کم ہی نظر آتے ہیں۔ جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کا جھولا جھولنے کا شوق بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، لیکن ہم صرف بچوں کی بات نہیں کر رہئے ۔ جھولا جولنا تو بچوں اور بڑوں سب کو ہی پسند ہوتا ہے، اسے صرف بچوں کیلئے مختص کر کے رکھ دینا درست نہیں۔اکثر گھروں میں گھر کے بڑے بزرگ آرام کرسی پر بیٹھ کر کتاب پڑھنا یا سویٹر بننا پسند کرتے ہیں یہ جھولا ان کی آرام کرسی کا ہی جدید ورژن سمجھ لیں۔ عمر میں اضافہ کے ساتھ ہی ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افراد اپنے آپ کو اچھل کود سے دور کر لیتے ہیں ، وقت کی قلت کے باعث کئی سرگرمیاں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں۔ اس کے حل کیلئے گھر میں ان ڈور جھولا لے آئیں ۔اس پر بیٹھ کر وزنی سے وزنی انسان بھی ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے، کچھ دیر کیلئے ہی سہی لیکن ہوا میں جھول کر اپنے موٹاپے کو بھول جاتا ہے۔ بچے اسے جھولتے جھولتے نیند کی گلیوں میں کھو جاتے ہیں جبکہ نوجوان اسی طرح کے جھولے پر بیٹھ کر خیالوں میں اپنا آبائی محل تلاش کرنے میںمصروف ہوجاتے ہیں۔


جھولے کو گھر کے باہر کے ساتھ ساتھ گھر کے اندر بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ گھر کے اندر جھولا لگانے کا یہ انداز کوئی نیا نہیں ہے بلکہ جانا پہچانا ہے بس یہ کہہ لیں کہ گھر کے اندرفرنیچر کے حصے کے انداز کے جھولے کا رواج پہلے کم ہوا اور اب ختم ہونے کے در پے آ چکا ہے۔

گھر کے اندر جھولا عیش و آرام و آسائش کا ضامن ہے ۔ اسے ایک فرنیچر کی طرح گھر کے کسی حصے میں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔گھر کے اندر اس کے استعمال سے آپ کسی بھی بورنگ کمرے کو جیتا جاگتا بنا سکتے ہیں ۔ یہ گھر کے اندر ایک انٹرٹینمنٹ اور تفریح کا سامان پیدا کر دیتا ہے۔اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ ہر گھر کی ساخت ایسی نہیں ہوتی کہ اس میںجھولا لگایا جا سکے ۔ اسے بہتر طریقے سے لگانے اور جھولنے کیلئے کمرے میں کھلی جگہ کا ہونا ضروری ہے۔اس کیلئے کسی پروفیشنل سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی کئی ایک اقسام موجود ہیں جیسا کہ آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
گرمی ہو یا سردی ، برسات کے ساتھ ساتھ بہار اور خزاں ہر موسم میں اسے جھولنے کا مزاہ الگ ہی سکون و راحت فراہم کرتا ہے۔ اسے جھولتے جھولتے بچپن میں لوٹ جائیں ، ٹھنڈی میٹھی ہوا سے گرمی کی شدت کم کر لیں یا پھر کسی خیال کے سمندرمیں ڈوب جائیں ۔ اسے جھولتے ہوئے وہ وقت باآسانی کٹ جاتا ہے جسے آپ گزارنا چاہتے ہیں اور وہ وقت رک رک کر گزرتا ہے جسے آپ آہستہ آہستہ گزار کر جینا چاہتے ہیں۔

ان خوبصورت جھولوں کو آپ گھر کے کسی بھی ایسے حصے میں لگا یا رکھ سکتے ہیں جہاں اسے جھولنے کی جگہ مل سکے۔ گھر کے کھلے برآمدے ، بالکونی اس کیلئے بہترین جگہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ جھولے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف دیکھنے کی حد تک اور سجاوٹی جھولے ہوتے ہیں، اس قسم کے جھولے لکڑی پر نقش ونگاری کر کے بنائے جاتے ہیں، بھاری ہونے کے باعث جھولے نہیں جاتے البتہ ہلکا پھلکا آگے پیچھے ہونے سے الگ سرور دیتے ہیں۔ اس قسم کے جھولے بڑے اور بزرگوں کیلئے بہترین ہیں۔ یہ جھولے گھر کے لاﺅنج یا بیڈ روم میں رکھے جاتے ہیں۔ اس کی بیٹھنے کی سیٹ زیادہ لمبی ہوتی ہے ، بشت کمر ٹیکانے کیلئے آرام دہ اور نیچلے حصے میں پاﺅں رکھنے کی جگہ بھی موجود ہوتی ہے۔ اس طرح کی کرسی نما جھولے کی کمرے میں موجودگی سے کمرہ مکمل لگتا ہے اور اسے جھولنے کے بعد یہ آپ کا پسندیدہ فرنیچر بن جاتا ہے۔

اس کے منفرد ڈزائن اور رنگوں کی فکر کئے بغیر اسے اپنے گھر کی زینت بنائیں کیونکہ اس کی موجودگی یقینی طور آپ کے گھر کے دوسرے فرنیچر کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت انٹیریئر کا نمونہ پیش کرئے گی۔ یہ مہمان دوست بھی ہے،گھر میں آنے والے مہمان پہلے تو اسے دور سے دیکھیں گے ، خالی مل گیا تو جھولنا چاہیں گے اور اگر خالی نہیں ملا تو اس کے خالی ہونے اور اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آئیں گے، جسے دیکھ کر آپ کوانتہائی خوشی و مسرت محسوس ہوگی۔









Monday 19 August 2013

”لٹیرا“ ۔۔۔۔ فلم رویو ۔۔۔۔ Looter" Hindi Movie Review"

فلم ”لٹیرا“کے ڈائریکٹر ”وکرم آدیتیا“ الگ قسم کی فلمیں بناتے ہیں۔ ان کی پہلی فلم ”اڑان “میں انہوں نے روایتی ہندی فلموں سے ہٹ کر کچھ کیا۔ اسی وجہ سے ان کی دوسری فلم ”لٹیرا“کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا ۔ فلم کی غیرمعمولی مرکزی جوڑی اور ان کے درمیان پروان چڑھنے والے پیار کی کہانی کے تجسس نے فلم کے دلدادہ افرادکی امیدیں اور
بھی بڑھا دیں تھیں۔

Looter Movie Review

”لٹیرا“ فلم کی کہانی ہے ایک زمیندار یعنی(برون چندا) اور ان کی بیٹی پاکھی (سوناکشی سنہا) کی، جو کہ مغربی بنگال کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں رہتے ہیں۔ ایک دن ایک ینگ ، چارمنگ ماہر آثار قدیمہ” ورون شیواستو“یعنی کہ (رنبیر سنگھ) اور اس کا دوست زمیندار کے پاس آتے ہیں اور اس کی زمین میں آثار قدیمہ کے آثار تلاش کرنے کیلئے مدد مانگتے ہیں۔ورون پر الزام ہے کہ اس نے ہزاروں ، لاکھوں روپے چرائے ہیں، زمینداروں ، راجاﺅں ، مہاجاﺅں کو بے وقوف بنا کر ان کی زمین ہڑپ کی ہے اور کئی خاندانوں کے نام و نشان تک ختم کر دیئے ہیں۔ زمیندار ورون کی اصلیت سے انجان اس کی مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اسے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اسی دوران پاکھی کو ورون سے محبت ہو جاتی ہے۔ ورون بھی پاکھی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن ہونی کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔

فلم کی کہانی ”او ہینری “کی فلم ”دا لاسٹ لیف “سے لی گئی ہے، جس سے متاثر ہو کر پہلے ہی بہت ساری بین الاقوامی فلمیں بن چکی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ فلم ”لٹیرا“آپ کو آمر خان کی فلم ”فنا“سے بھی ملتی جلتی لگے گی۔ خاص طور سے فلم کا پہلا حصہ جو کہ تھوڑا لمبا اور بورنگ لگتا ہے، جبکہ فلم کی زیادہ تر کہانی دوسرے حصے کیلئے بچا کر رکھی گئی ہے۔ فلم میں آپ کو کئی اچھے سین نظر آئیں گے، خاص طور سے فلم کا دوسرا حصہ جس میں ایک سے بڑھ کر ایک سین موجود ہیں۔ ”لٹیرا“1950 ءکی فلموں کی طرز پر بنی ہے، جس میں پرانے زمانہ کی قدیم دراز حویلیاں، ونٹیج کاریں، لٹریچر، اعتماد، محبت اور نفرت کے جذبات کے علاوہ ایکشن کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے ۔فلم میں آپ امیر بنگالی کلچر سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے جس کا کریڈٹ مکمل طور پر فلم کے ڈائریکٹر کو جاتا ہے۔ کئی جگہ پر فلم ایرانی، چینی اور کورین رومانوی فلموں جیسی لگتی ہے جبکہ فلم کے آخری گھنٹے میں گزشتہ ہفتے کی ریلیز فلم ”رانجھنا“کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ فلم کے پہلے حصے کے منفی نقتے دوسرے حصے میں مثبت پہلو بن کر سامنے آتے ہیں اور فلم کو مظبوط اور دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ 
فلم میں کیا گیا کیمرہ ورک بہترین ہے اور اسے نہایت آرٹسٹک طریقے سے شوٹ کیا گیاہے، بیرونی مقامات پر لئے گئے شارٹس کے ساتھ ساتھ فلم کا ہر فریم سین کسی شاعرانہ پینٹنگ سے کم نہیں ہے۔

امیت ترویدی کی موسیقی بھی کمال کی پائی گئی، ”سنوار لوں“، ”مونٹا رے“، ”زندہ“ اور شکایتیں“جیسے گانے فلم کی جان ہیں۔ فلم کا بیک گراونڈ میوزک بھی کم نہیں اس نے فلم کے کلائی میکس سینز میں روح پھونک دی۔ فلم کے ڈائریکٹر وکرم آدیتیا نے اس فلم میں آرٹ اور سادگی کا خوبصورت امتزاج پیش کر کے اپنی بہترین صلاحیات کا سکہ منوا لیا ہے۔
اداکاری کی بات کی جائے تو ہیرو کا کردار نبھانے والے رنبیر سنگھ نے بہترین کام کیا ہے۔ اس ورسٹائل اداکار کی اداکاری آپ کو دیوانند کی یاد دلائے گی۔ رنبیر سنگھ نے مخصوص ”پنجابی منڈے “سٹائل سے ہٹ کر کچھ کیا جسے پسند کیا گیا ہے۔ جبکہ مد مقابل اداکارہ سوناکشی سنہا نے اپنے کردار میں جذب ہو کر اداکاری کی جس کا اندازہ فلم دیکھنے کے بعد ہو جاتا ہے۔ ان کی اداکاری اور خوبصورت ادائیں آپ کو ”مینا کماری“ اور ”مالا سنہا “ جیسی لگیں گی۔

فلم میں مرکزی جوڑی کی کیمسٹری ، اداکاری اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہونے والی گفتگو دل جکڑ لیتی ہے۔ نرم و نازم محبت اور پھر ڈھکی چھپی حرکات و سکنات میں اس کا اظہار کر کے بھی نہ کرنے والا محبت کا یہ انداز اس سے قبل کسی فلم کی زینت نہیں بنا۔ معصوم محبت اس وقت تھرلر میں تبدیل ہوجاتی ہے جب زندگی اپنادوسرا رخ دکھاتی ہے۔ اس موقع پر فلم کی ہیروئن پاکھی کا بولا جانے والا یہ ڈائیلاگ”میں اُس سے بدلہ نہیں لینا چاہتی سنگھ صاحب صرف اسے بھول جانا چاہتی ہوں “ یاد گار ثابت ہوا۔

نامورفلم ڈائیریکٹر ”کرن جوہر “ کا اس فلم کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ایک ”سپیشل فلم “ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک رومانٹک ماسٹر پیس ہے جو کہ دوسری ہندی مصالحہ فلموں سے الگ ہے۔ آرٹ فلم ہونے کے باعث یہ زیادہ آرٹینس نہیں کھینچ پائی البتہ سنیما لورز کو یہ فلم ضرور پسند آئے گی۔ lootera movie trailer

فُقرے ۔۔۔۔فلم رویو ۔۔۔

فلم” فُقرے “میں دلی کی سڑکوں پر گھومتے پھرتے ، چلاتے ، غراتے ، گرتے اور اٹھ کرقہقہے لگاتے چار من موجی فُقرے نظر آتے ہیں۔ یہ چاروں پکے دوست ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے کسی بھی طرح راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں۔
فلم کے کردار ہنی (پلکت سمراٹ ) اور چوچا (ورون شرما) کوبارہویں جماعت کے امتحان میں پاس ہونے کیلئے پیسے چاہئیں۔لالی ( منجوت سنگھ) کو اے گریڈ کالج میں داخلے کیلئے رقم درکار ہے ، جبکہ ظفر ( علی ا فضل ) کو اپنے ابا کا علاج کروانا ہے۔ یہ چاروں کردار اپنی عادات اور صلاحیتوں کے باعث ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ ان میں ہنی نہایت ہوشیار لڑکا ہے جس کا ذہین اورتیز دماغ ہر وقت پیسے کمانے کے نئے منصوبے سوچنے میں مصروف رہتا ہے، چوچا بے وقوف ، لالی پرسکون اور ظفر کم بولنے والا کردا دکھائی دیتا ہے۔

 مرکزی کرداروں میں جلوہ گر ہونے والے چاروں اداکار فلم نگری کے نئے باسی ہیں ، جن کی پہلے کوئی خاص پہچان نہیں تھی البتہ اب انہیں فُقرے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں سے چوچا ایک ایسا کردار ہے جسے عجیب وغریب خواب آتے ہیں ، جن کا حساب کتاب لگا کر

 ہنی لاٹری کے ٹکٹ کا نمبر نکالتا ہے اور ان کی لاٹری لگ جاتی ہے۔ ہنی کے مطابق ”جب جب چوچا سپنا دیکھتا ہے تب تب لاٹری لگتی ہے، بس ایک رقم لگانے والے کی ضرورت ہے“۔ یہاں فلم میں ان فُقروں کیلئے رقم لگانے والی کی اینٹری ہوتی ہے۔ ریچا چڈافلم کی ہیروئن کے کردار میں نظر آتی ہے۔ بدزبان ، سخت لہجے اور گالی گلوچ کرنے والی اس لڑکی میں پنجابن کی ادا بھی ہے اور ڈان کارعب بھی۔چاروں فُقرے ریچا چڈا سے پیسے ادھار لیتے ہیں ۔ اس کے بعد جیسا سب سوچتے ہیں ویسا ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہی فلم کی آگے کی کہانی ہے۔

”فُقرے“ آپ کو ”ایک چالیس کی لوکل “، اوئے لکی لکی اوئے“اور” دلی بیلی “ جیسی فلموں کی یاد دلاتی ہے، جہاں پر کچھ لوزرز جلدی امیر ہونے کے چکر میں خود چکر کھاتے نظر آتے ہیں۔ جیسے جیسے فلم کی کہانی آگے بڑھتی ہے فُقرے مزید مشکلات میں پھنستے جاتے ہیں اور انہیں مشکلات کے سمندر میں ڈوبتا ابھرتا دیکھ کر دیکھنے والے خوب مزے لیتے ہیں۔
فلم میں کچھ اچھے مزاحیہ سین ہیں جو آپ کوگدگداتے ہیں اور ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ کہانی البتہ تھوڑی سست ہے ساتھ ساتھ فلم کے کچھ گانے اسے مزید بور کرتے ہیں۔ رام سمپت کی دی گئی موسیقی ان کی گزشتہ ترتیب دی گئی موسیقی کی طرح مقبول نہیں ہوئی، اس کے باوجود گانے ”رمپا“، ”جوگاڑ “اور ”فُقرے“قدرے بہتر ہیں ، جبکہ فلم کا بہترین تصور کیا جانے والا گانا ”امبر سریہ “بھی کہیں کھو گیا ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر مریندیپ سنگھ لامبا کی گزشتہ فلم ”تین تھے بھائی“ بری طرح فلاپ ہوئی تھی ۔ کامیڈی فلم ہونے کے باوجودیہ فلم دیکھنے والوں کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی نہ لاسکی ۔ اب دو سال کے بعد فلم ”فُقرے “کی ریلیز پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈائریکٹر مریندیپ سنگھ لامباکے کام میںپچاس فیصد بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ چار نوجوان اداکاروں سے بہترین اداکاری کروانا بھی ان کے کریڈٹ میں آتا ہے۔ امید ہے ڈائریکٹر مریندیپ سنگھ لامبا اگلی مرتبہ شائقین کو سو فیصد کامیڈی فراہم کریں گے۔

اداکاری کی بات کریں تو پلکت سمراٹ نے اداکاری کا آغاز فلم ”بٹو باس “سے کیا تھا ، جس میں ان کی بری اداکاری کے باعث ان کے کردار پر کسی کی نظر نہیں پڑی ۔البتہ اس مرتبہ وہ شائقین کو اپنی معصومیت سے متاثر کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ورون شرما کی یہ پہلی فلم ہے ۔ اس کے باوجود وہ فلم کے بہترین کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ اگر ان کا کردار فلم سے نکال دیا جائے تو بے شک فلم پھیکی لگے گی۔ فلم ”اوئے لکی لکی اوئے “ سے فلم کیریئر کا آغاز کرنے والے منجوت سنگھ کی اداکاری بھی سراہنے کے لائق ہے۔ علی ا فضل ایک اچھے کردار میں نظر آئے ۔ فلم کی ہیروئن پریا آنندآخری مرتبہ فلم” انگلش ونگلش “میں نظر آئی تھیں۔ انہوں نے اپنا کردار بہترین انداز میں نبھایا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس فلم میں تھوڑا بہت دم ہے۔باکس آفس پر کچھ خاص نہیں کما سکی البتہ یہ فلم ایک اچھا ٹائم پاس ثابت ہو سکتی ہے۔

بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان یہ فلم دیکھ کر نئے اداکاروں کی اداکاری سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوںنے ”فُقرے “کی ٹیم کو اپنے گھر دعوت پر بلا لیا ۔ اس حوالے سے شاہ رخ خان کا کہنا تھا کہ یہ فلم دیکھ کر ان کی بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں۔

میرے حکمران اور میرا وطن اعلیٰ شان


سنہ انیس سو سنتالیس میں جب میرا ملک پاکستان قیام میں آیا ، اس وقت اسے بہت سے مسائل درپیش تھے ، لیکن آج میرے ملک کو جن مسائل نے گھیر رکھا ہے ان میں سرفہرست ملک پر حکمرانی کرنے والے حکمران ہیں ، جو حکومت کی غرض سے وطن ِ پاک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے میرے آزاد ، خود مختار عظمِ اعلیٰ شان کی شان مٹی میں ملا دی ہے ، اسے دیمک کی طرح چاٹنے والے اور کوئی نہیں ہمارے راہنماں ، حکمران ہی ہیں ، جنہیں ہم سیاستدان کہتے ہیں

، جن کے ذہنوں پر صرف کرسی ، عہدہ اور پیسہ سوار ہے۔ اعوام کو غریب ، مسکین اور بیچارہ کہنے والے ، ایک دوسرئے پر الزام تراشی کرنے والے ، اپنے مفادات کیلئے اپنا ایمان بیچنے والے بھوکے ننگے حکمران جو ہر روزاپنے مخالف کے کالے دھندے کا نیا کنواں کھود کر ڈھونڈ لاتے ہیں اسکے باوجود یہ دودھ کے دھلے !! ۔ چمکتے جوتی کپڑے ، لشکارے مارتی گاڑیاں اور لمبے لمبے پروٹوکول کے ساتھ آنیا جانیا دیکھانے والے جب تقریروں میں اپنے آپ کے ہی قصیدے پڑھتے ہیں تو دل ڈوب جاتا ہے ۔ مانا کہ کرپشن ، لالچ ، پیسے کی حوس ہوتی ہے ،انسان جس شعبے سے منسلک ہوتا ہے کسی نہ کسی انداز میں ڈنڈی مارتا ہے لیکن یہ کون سی پیاس ہے جو بجتی ہی نہیں

 ان حکمرانوں کے لالچ کے کنوئے بھرتے ہی نہیں۔انہوں نے میرے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، جہاں ایک طرف یہ خون چوستے کیڑے اور دوسرے جانب قرضوںکے انبار۔ یااللہ میرے ملک میرے وطن اعلیٰ شان کو میرے حکمرانوں سے بچا ، اور ان کی عمر دراز فرما، آمین ۔

پیار ، محبت ،عشق کے کھلاڑی


میں نے سنا ہے میرے شہر کے نوجوان محبت سے باغی ہو کر محبت کرتے ہیں۔ ایسی محبت کرتے ہیں جو کہ محبت کے اصولوں کے منافی ہے ۔ میں اس سوچ میں گم ہوں انہیں کس نے سکھا دی ایسی محبت ۔ محبت کے کھوکھلے اور بے بنیاد اصولوں کا انبار کہاں سے مل گیا انہیں ۔ یہ ایسی محبت کرتے ہیں جو چڑھتے سورج کو پہلا سلام کرتی ہے اور غروبِ آفتاب
کے ساتھ دم توڑ دیتی ہے ،ایک پھول کی کلی سے زیادہ نازک محبت جو نہ محبوب کے ستم سہے نہ ہجرو فراق کے لمحے۔

مطلبی ، لین دین کی محبت ، غلاظت سے بھرپور محبت جسے محبت کہیں تو خود محبت کی توہین ۔ میرئے دوست شاید محبت کا مفہوم بھول بیٹھے ہیں ، جو انس پر پہلا قدم رکھ کر پیار کی سیڑھی چڑھتی ہے ، محبت کی ریاضت میں دل جلا کر عشق کی منزل پاتی ہے ۔ میرئے دوستو، میرئے پیارو، میرئے عاشق مزاج کھلاڑیو چھوڑ دو یہ لین دین کی تجارت اور ایسی محبت

جو محض نفس کا کھیل چاہتی ہے۔ نفس کے کھیل میں ہار ہی ہار ہے اور بربادی بھی اور پاکیزہ محبت تو تزکیہ نفس ہے۔ محبت روح سے روح کا رشتہ ہے وہ رشتہ جو ہمیشہ رہ جانے والا ہو تا ہے اِس دنیا میں بھی اِس دنیا کے بعد بھی۔ یاد رکھو اس اولین محبت کو جو کائنات کی تخلیق سے شروع ہوئی اور روزِ آخر کے بعد بھی جاری رہے گی اور جو صر ف روح کے تعلق قائم کرنے سے ہی ہمیشہ رہ سکتی ہے ۔

Sunday 18 August 2013

میرا مستقبل !! ۔۔۔


ملک پاکستان کا نوجوان آج آپ کی خدمت میں ایک گزارش لے کر حاضر ہوا ہے ، اجازت تو نہیں دیں گے کہ عرض کروںلیکن گستاخ فطرت سے مجبور ہوں ۔
 عرض یہ ہے کہ میرا مستقبل تباہ ہو رہا ہے اور میں حیران و پریشان اور غم زدہ ہوںکے میرے علاوہ کسی کو پروا ہی نہیں!!۔۔۔میں عمر کے اس حصے میں ہوں جب دل و دماغ ، قلب و ذہین کے تمام گوشے روشنی ، جذبے اورجنون سے سرشار ہوتے ہیں ، رگوں میں گرم خون ایسا جوش مارتا ہے کہ ہر روز کامیابی کی سیڑھی چڑھ کر تاروں پر کمند ڈالنے کو جی چاہتا ہے ۔ لیکن میرے ساتھ کچھ مسلہ ہے شاید ، میرے ذہن میں مثبت سوچ کا نام ونشان تک نہیں،بلکہ میری سوچ اس ملک کے

حالات سے پریشان ہو کر دکھ اور ناامیدی کی دلدلوںمیں ڈوب چکی ہے، مجھے میرا مستقبل تاریک تو کیا دیکھائی ہی نہیں دیتا۔میری سمجھ سے بالاتر ہے ، میں سیاسی عینک لگاو ¿ں، کالی عینک لگاو ¿ںیا کسی بزرگ سے اسکے موٹے اور بڑے
چشمے والی عینک مانگ کر لگاوں اور اپنا مستقبل تلاش کروں۔ براے مہربانی میری مشکل آسان کریں اور اس ملک میں میرا مستقبل دیکھنے میں میری مدد کریں، اگر ایسا کرنا بھی مشکل ہے تو پھر اسے سسکتا اور آخری سانسیں لیتے تماشا دیکھیں۔

سروسز ہسپتال حادثہ ۔۔۔۔۔۔ ملزم کون !!

لاہور سروسز ہسپتال حادثے کو کئی ہفتے گزر چکے ہیں، جس میں اب تک 10 معصوم بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ میں سوچتی ہوں جو پھول ہمیشہ کیلئے مرجھا گئے ، ان کے والدین کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے یہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ، کسی کے گھرکی پہلی اولاد ہو گی، کسی کے گھر کئی بیٹوں کے بعد بیٹی کی رحمت برسی ہوگی، کہیں بہنوں کا پہلا محافظ بھائی پیدا ہوا ہوگا کہیں برسوں سے اجڑے چمن میں پہلے گل نے اپنی خوشبوں بکھیر کر گلدستہ مکمل
کیا ہوگا، نقصان تو ایسا ہوا جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کے احوال سے سرکار کے علاوہ باقی سب ہی واقف ہیں ، سروسز ہسپتال کی نرسری وارڈ کے حال کا بھی اللہ ہی حافظ ہے وارڈ میں گنجائش سے زیادہ سامان اور بچے رکھے گئے ، وارڈ میں کھڑکی اور روشندانوں کی ویسے ہی کمی رکھی گئی تھی ایسے میںاگر کہیں آگ بھڑک اٹھے تو ایک چھوٹے سے دروازہ سے کون کون نکلے گا، حادثہ کے فوراََ بعد معاملہ ہسپتال کے عملہ پرڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وارڈ کا عملہ بھاگ گیا اور معصوم بچوں کو جلنے کیلئے چھوڑ دیا گیا، جبکہ اس کے بر عکس وارڈ میں موجود نرس نے اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں نبھائی اور فرض کو انجام دیتے دیتے خود بھی جھلس گئیں۔ آگ بھڑکنے کے وقت نرسری میں کل25 بچے موجود تھے جن میں سے10 جابحق ہوئے۔ مرنے والے بچوں میں زیادہ تر وہ بچے شامل تھے جنہیں incubator میں رکھا گیا تھا ، incubator میں رکھے جانے والے بچے پیدائشی طور پر بیمار یا پری میچیور ہوتے ہیں ،incubator میں انہیں آکسیجن اور مختلف قسم کی ڈرپس لگی ہوتی ہیں جو انہیں سانس لینے اور زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں، آگ لگنے کے بعد فوری طور پر پہلے ان بچوں کو بچایا گیا جو کہ تندرست تھے ، آکسیجن ماسک کے بغیر سانس لے سکتے تھے ، اگر عملے اور ریسکیو اہلکار کو تھوڑا وقت اور مل جاتا تو ممکنہ طور پر سارے بچوں کو نرسری سے باحفاظت نکالاجاسکتاتھا۔ حادثہ شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آیا یہ بات وہاں موجود ہر انسان جانتاتھا، اس کے باوجود تحقیقات کروانے کا حکم صادر کر دیا گیا، تین چار دن کے اندر تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی جس میں واضح ہو گیا کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث ہی لگی تھی، اب شارٹ سرکٹ اے سی میں ہو یا سوچ بورڈ میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحقیقات کرانے کا مقصد کیا تھا ، بات کی گہرائی میں جانا تھا یا بات کی کھال اتارنا، جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے ، تحقیقات کروانے کا مقصد مجرم تک پہنچنا ہوتا ہے اور اگریہ مقصد پورا نہیں ہوا تو تحقیقات کروانا بے سود ۔ چلیں اب کچھ تنقید اپنے بھولے بھالے سیاستدانوں کی نظر بھی کی جائے ، حادثے کے بعد کئی سیاستدانوں نے سیاسی دماغ چلایا اور سیاست چمکانا شروع کر دی۔ وہ کہتے ہیں نا ڈاکٹر کے پاس جاو گے تو ڈاکٹر کوئی نا کوئی بیماری نکال کر دوا لکھ دے گا، جادو ٹونے والے کے پاس جائیں گے تو ، منا ہی لے گا کہ کالاجادو ہوا ہے یا کم از کم ایک آدھ جن یا پری کا سایہ ہے اور اس کے توڑ کی ضرورت ہے۔ حادثہ کے فوراََ بعد خادم اعلیٰ شہباز شریف موقع پر پہنچ گئے وہ یہی کر سکتے تھے اور انہوں نے کیا بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا، جبکہ دوسری جانب پنجاب میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا ظرف دیکھیں، سروسز ہسپتال گئے تو متاثرہ بچوں کی عیادت کرنے لیکن سیاستدان جو ٹھہرے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا معاملہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر ڈال کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ، اس سے بھی سکون نہ ملا تو متاثرہ خاندانوں سے اپیل کر ڈالی کے کہ وہ شہباز شریف کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں۔ اب راجہ ریاض کو کون سمجھائے کہ ایسے موقوں پر ایسی باتیں زیب نہیں دیتی، لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ جس ٹھیکیدار نے یہاں بجلی کی تاریں بچھانے اور سوچ بورڈ لگانے کا کام کیا اسے شاملِ تفتیش کیوں نہیں کیا گیا ، اس سے پوچھا گیا نہ معاملے میں ملوث کیا گیا ، یہ سوال اس سے کرناچاہئے تھا کہ کمرہ میں کی جانے والی وائیرنگ اور استعمال ہونے والے سوچ بورڈ کے معیار میں کمی کیوں رکھی گئی، جلنے والا سوچ بورڈ اور شارٹ سرکٹ کا باعث بننے والی تاریں معمولی نوعت کی تھیں اسی لیئے اے سی کیلئے درکار بھاری وولٹیج برداشت نہ کر سکیں اوران میں آگ بھڑک اٹھی، سیاسی شخصیات کو معاملا میں ملوث کرنے کی بجائے بنیادی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ، لیکن یہاں پر ہر معاملا ہی الٹاہے، وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے، ُّان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے مجنو نظر آتی ہے ، لیلیٰ نظر آتا ہے خیر ہم ان بچوں کا مجرم ڈھونڈنے نکلے تھے ، جو پاکستان میں آج تک کسی کو نہیں ملا ، میں نے بھی اپنی سی کوشش کر لی اور اب اس دعا کے ساتھ معاملہ اوپر والے پر ہی چھوڑ دیتی ہوں کہ اللہ مرنے والوں کو جنت نصیب کرئے اور ان کے والدین کو صبر عطا فرمائے، آمین۔