Thursday 22 August 2013

گھن چکر ۔۔۔Ghanchakar...Film Review


تجسس ایک ایسا ہتھیار ہے جسے زیادہ تر کرائم ،تھریلر یا پھر سیاسی فلموں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ البتہ کئی بور فلمیں بنانے والے ڈائریکٹر اس تجسس کواپنی فلم کی جان سمجھتے ہیں ۔ یہی حال ہوا ہے اس ہفتے کی ریلیز فلم” گھن چکر “ کا جو ایک مکمل مسٹری فلم ہے۔ اس فلم میں تجسس کے درمیان کبھی کبھی کامیڈی بھی نظر آ جاتی ہے۔


”گھن چکر “ فلم میں سنجو یعنی عمران ہاشمی ایک ایکسپرٹ چور ہے ۔ کریمینل مائنڈ سنجو جرم کی دنیا کو چھوڑنا چاہتا ہے اور یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایک بڑی سی بینک ڈکیتی کر کے بہت سارا پیسہ آنے کے بعد جرم کی دنیا کو خیر باد کہہ دے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ آرام و سکون کی زندگی گزارے گا۔ سنجو اپنے دو ساتھی مجرموں پنڈتھ ( راجیش شرما) اور ادریس ( نمت داس ) کے ساتھ مل کر ایک بینک لوٹتے ہیں ۔ تین مہینے بعد جب وہ لوٹ کے مال کے حصے کرنا چاہتے ہیں تو سنجو پنڈتھ اور ادریس کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک دماغی بیماری ( میموری لوس ) کا شکار ہو جاتا ہے۔ جبکہ پنڈتھ اور ادریس سنجو کی بیوی نیتو ( ودیا بالن ) کے ساتھ مل کر سنجو کی یاداشت واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ سنجو نے لوٹی ہوئی رقم کہاں رکھی ہے۔ فلم کی ہیروئین نیتو ( ودیا بالن) ایک ہٹی کٹی پنجابن ہاوس وائف ہے۔ جسے لگتا ہے کہ وہ ہر چیز کے بارے میں سارا کچھ جانتی ہے۔ فیشن کی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو فیشن آئی کان سمجھتی ہے۔

فلم کی کہانی یقینی طور پر مختلف اور غیر معمولی ہے۔ فلم کی شروعات میں کئی کمال اور دھمال کامیڈی سین ہیں جن پر ہنسی بھی آتی ہے۔ لیکن ایک وقت گزر جانے کے بعد کہانی بور لگنے لگتی ہے۔ فلم کی سٹوری آگے بڑھنے کیلئے اپنے یونیک کلائی میکس کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے اور جب فلم کا کلائی میکس آتا ہے تو بس فلم خود گھن چکر ہو کر رہ جاتی ہے۔


امیت ترویدی کی موسیقی اچھی ہے ۔ ”لیزی لیگ “ اور ”اللہ مہربان “فلم کے بہترین گانے ہیں جبکہ مرکزی گانا سن کر بھی کئی لوگ جھومنے لگتے ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر راج کمار کی آخری دو فلمیں ”آمر “ اور ”نو ون کیل جیسیکا“ بھی اپنے آپ میں منفرد فلمیں تھیں ۔ اسی کے ساتھ” گھن چکر“ بھی ایک منفرد قسم کی کامیڈی ، مسٹری فلم ہے۔ جس میں کبھی کامیڈی مسٹری میں کھو جاتی ہے اور کبھی مسٹری کامیڈی میںگم ہو جاتی ہے۔ فلم کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پندرہ منٹ کی فلم کو گھسیٹ گھسیٹ کر دو گھنٹے کا بنا دیا ہے۔

پرفارمنس کی بات کریں تو عمران ہاشمی اس مرتبہ کچھ الگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔جبکہ ودیا بالن فلم میں ایک شرلی کی طرح نمودار ہوئیں اور بھر فلم میں کمزور کردار کے باعث بجھ گئیں۔ فلم کی مرکزی جوڑی عمران اور ودیا اپنی گزشتہ فلموں ”ڈرٹی پکچر “ اور ”عشقیہ“میں مظبوط کردار اور لاجواب ایکٹنگ کے باعث عوام کی توقعات بڑھا چکے ہیں جن توقعات پر اس مرتبہ وہ پورے نہیں اترے۔ کل ملا کر دیکھاجائے تو اس فلم کے پہلے حصے میں کامیڈی نے جان ڈالی ہے ، جبکہ دوسرا حصہ تجسس میں کھو کر خود تجسس بن گیا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلم بری نہیں ہے لیکن کچھ خاص بھی نہیں ہے۔ بہر حال فلم کی کہانی سست رفتار ہونے کے باعث اسے فارورڈ کر کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

”یملا پگلا دیوانہ- ٹو“۔۔۔۔۔ Yamala, Pagala, Dewana- 2



”یملا پگلا دیوانہ - ٹو“ بالی وڈ کی کامیاب فلمی فیملی اور دیول باپ بیٹوں کی ایک ساتھ تیسری فلم ہے۔ 80 ءکی دہائی کے سپر اسٹار ہیرو دھرمیندر ا جی اپنے بیٹوں سنی اور بوبی دیول کے ساتھ دکھائی دتے ہیں تو سنیما ہال تالیوں سے گونچ اٹھتا ہے۔ سنگیت سیوانتھ کی ڈائریکشن میں بنی یہ فلم دیول خاندان کی جانب سے پروڈیوس کی گئی ہے۔ دیول خاندان سب سے پہلے 2007 ءمیںایک جذباتی فلم ”اپنے “اور 2011 ءمیں ”یملا ، پگلا ، دیوانہ “میں اکٹھے کام کر چکے ہیں۔

ایکشن ، کامیڈی اور رومانس پر مبنی یہ فلم اسکاٹ لینڈ میں شروع ہوتی ہے اور بنارس سے ہوتی ہوئی برطانیہ میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔فلم کی موسیقی میوزک ڈایئریکٹر ز شارب صابری، طوشی صابری اور سچن گپتا نے ترتیب دی ہے۔ فلم کی بنیادی کہانی صرف اتنی ہے کہ ، دھرم سنگھ دھلون (دھرمیندراجی ) اور اس کا بیٹا گجودھر عرف قیو(بوبی دیول )بنارس میں جعلی سادھو بن کر لوگوں کا مال ٹھگ لیتے ہیں ، پول کھلنے پر برطانیہ ہجرت کر جاتے ہیں اور یہاں نئے شکار کی تاک میں نائٹ کلب کے مالک یوگی راج کھنہ (انو کپور ) کو لوٹنے کی غرض سے اس کے پاس رہنے کیلئے جاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ مسٹر کھنہ کا پہلے سے ہی دیوالیہ نکل چکا ہے۔

 اس مشکل میں دھرم سنگھ دھلون کا دوسرا بیٹا پرم ویر ( سنی دیول ) جو کہ ایک ایماندار اور صالح قرض وصولی کا ایجنٹ ہے ۔ یہ کام اپنے انوکھے انداز میں کرتا ہے۔اس کا طریقہ ہے کہ ابتدا میں نادہندگان کو پھول پیش کر تا ہے البتہ بات نہ بننے پر اپنا ڈھائی کلو کا ہاتھ استعمال کرتا ہے۔ پرم ویراپنے باپ ،بھائی ، مسٹر کھنہ اور اس کے نائٹ کلب کو تمام مشکلات سے نکال کر دوبارہ بحال کرتا ہے۔ اس عرصہ میں دھرم سنگھ دھلون کے دونوں بیٹے گجودھراور پرم ویرمسٹر کھنہ کی دونوںبیٹیوں کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اور پھر یو ں ہوتا ہے کہ ان کے عشق کی وجہ سے ہی دھرم سنگھ دھلون اور اس کے دونوں بیٹے مزید مشکلات کا شکارہو جاتے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ فلم کی کہانی کے بارے میں اس سے زیادہ کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اس فلم میں ہیروئن کے طور پر کریس ٹینا اور نیہانے اپنے اپنے کردار نبھائے ۔


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلم ڈائریکٹر اور دیول خاندان ”یملا پگلا دیوانہ “کے سیکوئیل کومزاحیہ اور دلچسپ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ فلم نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ تو کر لیا لیکن اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ دھرمیندراجی اور دیول برادرز کی اداکاری بھی تسلی بخش نہیں تھی، اس کے ساتھ ساتھ فلم کی بوگس کہانی اور ڈائیلاگزبھی اس کی ناکامی کی وجہ بنے ہیں۔

 فلم میں بولے جانے والے مضحکہ خیز جملے، سنی دیول کی شیر انداز دھاڑ ،اس کے (بن مانس )بندر کی بے تکی حرکات اور اداکاری نے شائقین کو متاثر نہیں کیا، البتہ مایوس ضرور کیا۔ اس سے بہتر یہی تھا کہ ”یملا پگلا دیوانہ “کا سیکوئیل نہ بنایا جاتا ، کیونکہ یہ اصل سے بھی بدتر ہے ۔ فلم کی موسیقی کو تولا جائے تو مرکزی گانے کے علاوہ کوئی ایسا گانا نہیں جسے بار بار گنگنایا جا سکے ، تمام گانے عام اور ناقابل ذکر ہیں۔


فلم بینوں نے ”یملا پگلا دیوانہ- ٹو“ کو ایک اوسط فلم قرار دیا ہے جس میں پنجابی ٹھاٹھ باٹھ تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی کمیاں موجود ہیں۔ دیول خاندان کی بری اداکاری سمیت خواتین اداکاراوں کا کردار سمجھ سے باہر ہے ۔

رلیز کے بعد سے ”یملا پگلا دیوانہ- ٹو“اپنے پہلے ہفتے میں 22 کروڑ کا بزنس کر چکی ہے ۔ تاہم لگتا کہ اس بزنس کی وجہ بھی یہ فلم نہیں بلکہ دیول خاندان کی گزشتہ فلمیں ہیں جنہیں شائقین نے پسند کیا تھا اورانھی کی وجہ سے یہ فلم دیکھنے پہنچ گئے ۔ کیونکہ اس سیکوئیل میں تو دھرمیندر ا جی اور دیول برادران کا جادو چل نہیں سکا ہے۔



Wednesday 21 August 2013

Chennai Express, Film Reviewچینائی ایکسپریس ۔۔۔ فلم ریوو۔۔۔


اس ہفتے کی رلیز فلم ”چینائی ایکسپریس “ واقعی میں ایک ایکسپریس ہے یا پھر ایک عام ٹرین ہے یہ جاننے اسے اپنے ترازو میں تولتے ہیں۔ فلم کی کہانی ہے چالیس سالہ روہول ( شاہ رخ خان )کی جو کہ ابھی تک کنوارہ ہے۔ راہول یتیم ہے اور اس کی پرورش اس کے دادا نے کی ہے۔


راہول اپنے داد سے بہت پیار کرتا ہے اور انہیں کی دیکھ بھال کیلئے اس نے ابھی تک شادی نہیں کی ۔ داد کی وفات کے بعد ان کی آخری خواہش کے مطابق راہول ان کی استھیوں کو رامیشورم میں بہانے کیلئے چینائی ایکسپریس سے چینائی چلا جاتا ہے ۔ البتہ قسمت کو یہ منظور ہوتا ہے کہ وہ ایک تامل لڑکی مینا یعنی کے (دپیکا پودوکون ) سے ملے ۔مینا جو کہ گھر سے بھاگ آئی ہے ۔راہول کو بعد میں احساس ہوتا ہے کہ مینا ایک ڈان دوگیشوارا (ستیا راج ) کی بیٹی ہے۔ مینا کے والد اس کی شادی ایک دیو نما لڑکے ” تانگا ولی“(نکیتن) سے کرنا چاہےے ہیں تاکہ ڈان ”دوگیشوارا “اپنے گاﺅں” کومبن “کے ساتھ ساتھ پڑوسی گاﺅں پر بھی حکومت کر سکے۔ چینائی ایکس پریس میں مینا کے ساتھ سفر کے دوران سفر کے دوران حالات کچھ ایسے ہو جاتے ہیں کہ روہول نہ چاہتے ہوئے بھی مینا کے ساتھ اس کے گاﺅں چلا جاتا ہے ۔

”جب تک ہے جاں “میں سنجیدہ کردار نبھانے کے بعد اس فلم میں شاہ رخ خان آپ کو ایکشن ، رومانس کے ساتھ ساتھ کامیڈی کرتے بھی نظر آئیں گے ، لیکن یہ بات تو ہم بھی جانتے ہیں اور سارا گاﺅں بھی جانتا ہے کہ شاہ رخ خان کی کامیڈی میں اتنا دم نہیں ہے جتنا دم ان کے رومانوی کرداروں میں نظر آتا ہے ، اسی لئے فلم میں کئی جگہ پر کامیڈی سین کرتے ہوئے انہیں مشکل پیش آئی جس کا اندازہ فلم دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔کئی سینز میں وہ مذاخیاں لگتے ہیں البتہ سنجیدہ اور جذباتی سینز میں ان کی اداکاری کمال ہے۔

دپیکا کی بات کی جائے تو اس فلم میں ان کا کردار نہایت مختلف ہے۔ ساﺅتھ انڈین تامل لڑکی کے کردار میں ان کا تلفظ اور انداز بہترین ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر فلم میں دپیکا اپنی شخصیت کے الگ رنگ سے متارف کرواتی ہیںجو کہ ان کی خاصیت بھی ہے۔

فلم ”اوم شانتی اوم “کے بعد شاہ رخ خان اور دپیکا پوڈوکون چھ سال کے بعد ایک ساتھ نظر آئے ہیں۔ جبکہ روہیت شیٹھی اور شاہ رخ خان پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کر رہئے ہیں۔ جس کے باعث فلم بینوں کی امیدیںبہت زیادہ ہیں۔ فلم میں دپیکا اور شاہ رخ خان کی کیمسٹری اچھی ہے اور اس جوڑی نے ساتھ میں کچھ نہایت ہی عمدہ سین کیے ہیں۔

”گول مال سیریز “اور ”بول بچن “فلموں کے بعد روہیت شیٹھی کی یہ پہلی فلم ہے جس میں اجے دیوگن نہیں ہیں۔بے شمار کامیڈی ، ہائی وولٹیج ایکشن اور ہوا میں اڑتی کاریں جو کہ روہول شیٹھی کی فلموں کی جان ہے ۔ اس فلم میں بھی اس قسم کا مصالحہ کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے۔ فلم مکمل چور پر راہول شیٹھی سٹائل فلم ہے جس میں ”دل والے دلہنیاں لے جائیں گے“ سٹائل کا ہلکا سا تڑکا لگایا گیا ہے۔

فلم کے آوٹ دور سین بہترین ہیںاور ایکشن سینز صوبر ہیں ۔ فلم کی موسیقی ”وشال ، شیکھر “ نے ترتیب دی ہے۔ فلم کا مرکزی گانا ایک اوسط گانا ہے۔” ون ، ٹو، تھری ، فور“ میں تھوڑا دم ہے ، ”تتلی “ایک رومانوی گانہ ہے، مگر ان میں بہترین ”لونگی ڈانس “ ایک مذاخیاں گانا ہے ، جسے یو یو ہنی سنگھ نے گایا ہے۔ گانے میں گائے جانے والے بول بے تکے ہیں اس کے باوجود یہ گانا تیزی سے مشہور ہو رہا ہے اور لوگوں کی پلے لسٹ میں جگہ بنا رہا ہے۔

فلم کا سب سے بڑا ڈرا بیک فلم کی کہانی ہے ۔ فلم کی شروعات بہترین ہے البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلم کی کہانی کے باعث اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ فلم کی خوبصورت لوکیشنز اور ساﺅتھ ٹچ دیکھنے کیلئے چینائی ایکسپریس ضرور دیکھیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ شاہ رخ خان اور دپیکا کے فین ہیں تو فلم دیکھنا بنتا ہی ہے ۔










Tuesday 20 August 2013

اندڈور جھولا ۔۔۔ ہوم ڈیکور ۔۔۔۔Indoor Swing, Home Decoration



بچپن کا ساتھی جھولا جسے دیکھ کر ہم اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتے ہیں ، جسے جھولتے جھولتے بچہ کب جوان ہو جاتا ہے اس کا احساس اسے خود بھی نہیں ہوتا۔ ماں کی گود کا بہترین متبادل یہ جھولا بڑوں کیلئے ماڈرن فرنیچر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ گھر میں سجاوٹی فرنیچر کے ساتھ اس جھولے کو جدید اشکال میں ڈھال کر گھر کے انٹیرئر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

پہلے زمانوں میں جھولا تقریبا ہر گھر میں پایا جاتا تھا۔ اس زمانے کے وسیع و دراذ صحن اوراس صحن میں لگے بڑے سے درخت کی سب سے موٹی شاخ کو بچے اپنے چھولے کیلئے چن لیا کرتے تھے۔ لیکن اب اس طرز کے گھر اور اس انداز کے وسیع و عریظ صحن اب کم ہی نظر آتے ہیں۔ جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کا جھولا جھولنے کا شوق بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، لیکن ہم صرف بچوں کی بات نہیں کر رہئے ۔ جھولا جولنا تو بچوں اور بڑوں سب کو ہی پسند ہوتا ہے، اسے صرف بچوں کیلئے مختص کر کے رکھ دینا درست نہیں۔اکثر گھروں میں گھر کے بڑے بزرگ آرام کرسی پر بیٹھ کر کتاب پڑھنا یا سویٹر بننا پسند کرتے ہیں یہ جھولا ان کی آرام کرسی کا ہی جدید ورژن سمجھ لیں۔ عمر میں اضافہ کے ساتھ ہی ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افراد اپنے آپ کو اچھل کود سے دور کر لیتے ہیں ، وقت کی قلت کے باعث کئی سرگرمیاں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں۔ اس کے حل کیلئے گھر میں ان ڈور جھولا لے آئیں ۔اس پر بیٹھ کر وزنی سے وزنی انسان بھی ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے، کچھ دیر کیلئے ہی سہی لیکن ہوا میں جھول کر اپنے موٹاپے کو بھول جاتا ہے۔ بچے اسے جھولتے جھولتے نیند کی گلیوں میں کھو جاتے ہیں جبکہ نوجوان اسی طرح کے جھولے پر بیٹھ کر خیالوں میں اپنا آبائی محل تلاش کرنے میںمصروف ہوجاتے ہیں۔


جھولے کو گھر کے باہر کے ساتھ ساتھ گھر کے اندر بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ گھر کے اندر جھولا لگانے کا یہ انداز کوئی نیا نہیں ہے بلکہ جانا پہچانا ہے بس یہ کہہ لیں کہ گھر کے اندرفرنیچر کے حصے کے انداز کے جھولے کا رواج پہلے کم ہوا اور اب ختم ہونے کے در پے آ چکا ہے۔

گھر کے اندر جھولا عیش و آرام و آسائش کا ضامن ہے ۔ اسے ایک فرنیچر کی طرح گھر کے کسی حصے میں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔گھر کے اندر اس کے استعمال سے آپ کسی بھی بورنگ کمرے کو جیتا جاگتا بنا سکتے ہیں ۔ یہ گھر کے اندر ایک انٹرٹینمنٹ اور تفریح کا سامان پیدا کر دیتا ہے۔اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ ہر گھر کی ساخت ایسی نہیں ہوتی کہ اس میںجھولا لگایا جا سکے ۔ اسے بہتر طریقے سے لگانے اور جھولنے کیلئے کمرے میں کھلی جگہ کا ہونا ضروری ہے۔اس کیلئے کسی پروفیشنل سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی کئی ایک اقسام موجود ہیں جیسا کہ آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
گرمی ہو یا سردی ، برسات کے ساتھ ساتھ بہار اور خزاں ہر موسم میں اسے جھولنے کا مزاہ الگ ہی سکون و راحت فراہم کرتا ہے۔ اسے جھولتے جھولتے بچپن میں لوٹ جائیں ، ٹھنڈی میٹھی ہوا سے گرمی کی شدت کم کر لیں یا پھر کسی خیال کے سمندرمیں ڈوب جائیں ۔ اسے جھولتے ہوئے وہ وقت باآسانی کٹ جاتا ہے جسے آپ گزارنا چاہتے ہیں اور وہ وقت رک رک کر گزرتا ہے جسے آپ آہستہ آہستہ گزار کر جینا چاہتے ہیں۔

ان خوبصورت جھولوں کو آپ گھر کے کسی بھی ایسے حصے میں لگا یا رکھ سکتے ہیں جہاں اسے جھولنے کی جگہ مل سکے۔ گھر کے کھلے برآمدے ، بالکونی اس کیلئے بہترین جگہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ جھولے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف دیکھنے کی حد تک اور سجاوٹی جھولے ہوتے ہیں، اس قسم کے جھولے لکڑی پر نقش ونگاری کر کے بنائے جاتے ہیں، بھاری ہونے کے باعث جھولے نہیں جاتے البتہ ہلکا پھلکا آگے پیچھے ہونے سے الگ سرور دیتے ہیں۔ اس قسم کے جھولے بڑے اور بزرگوں کیلئے بہترین ہیں۔ یہ جھولے گھر کے لاﺅنج یا بیڈ روم میں رکھے جاتے ہیں۔ اس کی بیٹھنے کی سیٹ زیادہ لمبی ہوتی ہے ، بشت کمر ٹیکانے کیلئے آرام دہ اور نیچلے حصے میں پاﺅں رکھنے کی جگہ بھی موجود ہوتی ہے۔ اس طرح کی کرسی نما جھولے کی کمرے میں موجودگی سے کمرہ مکمل لگتا ہے اور اسے جھولنے کے بعد یہ آپ کا پسندیدہ فرنیچر بن جاتا ہے۔

اس کے منفرد ڈزائن اور رنگوں کی فکر کئے بغیر اسے اپنے گھر کی زینت بنائیں کیونکہ اس کی موجودگی یقینی طور آپ کے گھر کے دوسرے فرنیچر کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت انٹیریئر کا نمونہ پیش کرئے گی۔ یہ مہمان دوست بھی ہے،گھر میں آنے والے مہمان پہلے تو اسے دور سے دیکھیں گے ، خالی مل گیا تو جھولنا چاہیں گے اور اگر خالی نہیں ملا تو اس کے خالی ہونے اور اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آئیں گے، جسے دیکھ کر آپ کوانتہائی خوشی و مسرت محسوس ہوگی۔









Monday 19 August 2013

”لٹیرا“ ۔۔۔۔ فلم رویو ۔۔۔۔ Looter" Hindi Movie Review"

فلم ”لٹیرا“کے ڈائریکٹر ”وکرم آدیتیا“ الگ قسم کی فلمیں بناتے ہیں۔ ان کی پہلی فلم ”اڑان “میں انہوں نے روایتی ہندی فلموں سے ہٹ کر کچھ کیا۔ اسی وجہ سے ان کی دوسری فلم ”لٹیرا“کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا ۔ فلم کی غیرمعمولی مرکزی جوڑی اور ان کے درمیان پروان چڑھنے والے پیار کی کہانی کے تجسس نے فلم کے دلدادہ افرادکی امیدیں اور
بھی بڑھا دیں تھیں۔

Looter Movie Review

”لٹیرا“ فلم کی کہانی ہے ایک زمیندار یعنی(برون چندا) اور ان کی بیٹی پاکھی (سوناکشی سنہا) کی، جو کہ مغربی بنگال کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں رہتے ہیں۔ ایک دن ایک ینگ ، چارمنگ ماہر آثار قدیمہ” ورون شیواستو“یعنی کہ (رنبیر سنگھ) اور اس کا دوست زمیندار کے پاس آتے ہیں اور اس کی زمین میں آثار قدیمہ کے آثار تلاش کرنے کیلئے مدد مانگتے ہیں۔ورون پر الزام ہے کہ اس نے ہزاروں ، لاکھوں روپے چرائے ہیں، زمینداروں ، راجاﺅں ، مہاجاﺅں کو بے وقوف بنا کر ان کی زمین ہڑپ کی ہے اور کئی خاندانوں کے نام و نشان تک ختم کر دیئے ہیں۔ زمیندار ورون کی اصلیت سے انجان اس کی مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اسے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اسی دوران پاکھی کو ورون سے محبت ہو جاتی ہے۔ ورون بھی پاکھی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن ہونی کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔

فلم کی کہانی ”او ہینری “کی فلم ”دا لاسٹ لیف “سے لی گئی ہے، جس سے متاثر ہو کر پہلے ہی بہت ساری بین الاقوامی فلمیں بن چکی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ فلم ”لٹیرا“آپ کو آمر خان کی فلم ”فنا“سے بھی ملتی جلتی لگے گی۔ خاص طور سے فلم کا پہلا حصہ جو کہ تھوڑا لمبا اور بورنگ لگتا ہے، جبکہ فلم کی زیادہ تر کہانی دوسرے حصے کیلئے بچا کر رکھی گئی ہے۔ فلم میں آپ کو کئی اچھے سین نظر آئیں گے، خاص طور سے فلم کا دوسرا حصہ جس میں ایک سے بڑھ کر ایک سین موجود ہیں۔ ”لٹیرا“1950 ءکی فلموں کی طرز پر بنی ہے، جس میں پرانے زمانہ کی قدیم دراز حویلیاں، ونٹیج کاریں، لٹریچر، اعتماد، محبت اور نفرت کے جذبات کے علاوہ ایکشن کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے ۔فلم میں آپ امیر بنگالی کلچر سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے جس کا کریڈٹ مکمل طور پر فلم کے ڈائریکٹر کو جاتا ہے۔ کئی جگہ پر فلم ایرانی، چینی اور کورین رومانوی فلموں جیسی لگتی ہے جبکہ فلم کے آخری گھنٹے میں گزشتہ ہفتے کی ریلیز فلم ”رانجھنا“کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ فلم کے پہلے حصے کے منفی نقتے دوسرے حصے میں مثبت پہلو بن کر سامنے آتے ہیں اور فلم کو مظبوط اور دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ 
فلم میں کیا گیا کیمرہ ورک بہترین ہے اور اسے نہایت آرٹسٹک طریقے سے شوٹ کیا گیاہے، بیرونی مقامات پر لئے گئے شارٹس کے ساتھ ساتھ فلم کا ہر فریم سین کسی شاعرانہ پینٹنگ سے کم نہیں ہے۔

امیت ترویدی کی موسیقی بھی کمال کی پائی گئی، ”سنوار لوں“، ”مونٹا رے“، ”زندہ“ اور شکایتیں“جیسے گانے فلم کی جان ہیں۔ فلم کا بیک گراونڈ میوزک بھی کم نہیں اس نے فلم کے کلائی میکس سینز میں روح پھونک دی۔ فلم کے ڈائریکٹر وکرم آدیتیا نے اس فلم میں آرٹ اور سادگی کا خوبصورت امتزاج پیش کر کے اپنی بہترین صلاحیات کا سکہ منوا لیا ہے۔
اداکاری کی بات کی جائے تو ہیرو کا کردار نبھانے والے رنبیر سنگھ نے بہترین کام کیا ہے۔ اس ورسٹائل اداکار کی اداکاری آپ کو دیوانند کی یاد دلائے گی۔ رنبیر سنگھ نے مخصوص ”پنجابی منڈے “سٹائل سے ہٹ کر کچھ کیا جسے پسند کیا گیا ہے۔ جبکہ مد مقابل اداکارہ سوناکشی سنہا نے اپنے کردار میں جذب ہو کر اداکاری کی جس کا اندازہ فلم دیکھنے کے بعد ہو جاتا ہے۔ ان کی اداکاری اور خوبصورت ادائیں آپ کو ”مینا کماری“ اور ”مالا سنہا “ جیسی لگیں گی۔

فلم میں مرکزی جوڑی کی کیمسٹری ، اداکاری اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہونے والی گفتگو دل جکڑ لیتی ہے۔ نرم و نازم محبت اور پھر ڈھکی چھپی حرکات و سکنات میں اس کا اظہار کر کے بھی نہ کرنے والا محبت کا یہ انداز اس سے قبل کسی فلم کی زینت نہیں بنا۔ معصوم محبت اس وقت تھرلر میں تبدیل ہوجاتی ہے جب زندگی اپنادوسرا رخ دکھاتی ہے۔ اس موقع پر فلم کی ہیروئن پاکھی کا بولا جانے والا یہ ڈائیلاگ”میں اُس سے بدلہ نہیں لینا چاہتی سنگھ صاحب صرف اسے بھول جانا چاہتی ہوں “ یاد گار ثابت ہوا۔

نامورفلم ڈائیریکٹر ”کرن جوہر “ کا اس فلم کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ایک ”سپیشل فلم “ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک رومانٹک ماسٹر پیس ہے جو کہ دوسری ہندی مصالحہ فلموں سے الگ ہے۔ آرٹ فلم ہونے کے باعث یہ زیادہ آرٹینس نہیں کھینچ پائی البتہ سنیما لورز کو یہ فلم ضرور پسند آئے گی۔ lootera movie trailer

فُقرے ۔۔۔۔فلم رویو ۔۔۔

فلم” فُقرے “میں دلی کی سڑکوں پر گھومتے پھرتے ، چلاتے ، غراتے ، گرتے اور اٹھ کرقہقہے لگاتے چار من موجی فُقرے نظر آتے ہیں۔ یہ چاروں پکے دوست ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے کسی بھی طرح راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں۔
فلم کے کردار ہنی (پلکت سمراٹ ) اور چوچا (ورون شرما) کوبارہویں جماعت کے امتحان میں پاس ہونے کیلئے پیسے چاہئیں۔لالی ( منجوت سنگھ) کو اے گریڈ کالج میں داخلے کیلئے رقم درکار ہے ، جبکہ ظفر ( علی ا فضل ) کو اپنے ابا کا علاج کروانا ہے۔ یہ چاروں کردار اپنی عادات اور صلاحیتوں کے باعث ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ ان میں ہنی نہایت ہوشیار لڑکا ہے جس کا ذہین اورتیز دماغ ہر وقت پیسے کمانے کے نئے منصوبے سوچنے میں مصروف رہتا ہے، چوچا بے وقوف ، لالی پرسکون اور ظفر کم بولنے والا کردا دکھائی دیتا ہے۔

 مرکزی کرداروں میں جلوہ گر ہونے والے چاروں اداکار فلم نگری کے نئے باسی ہیں ، جن کی پہلے کوئی خاص پہچان نہیں تھی البتہ اب انہیں فُقرے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں سے چوچا ایک ایسا کردار ہے جسے عجیب وغریب خواب آتے ہیں ، جن کا حساب کتاب لگا کر

 ہنی لاٹری کے ٹکٹ کا نمبر نکالتا ہے اور ان کی لاٹری لگ جاتی ہے۔ ہنی کے مطابق ”جب جب چوچا سپنا دیکھتا ہے تب تب لاٹری لگتی ہے، بس ایک رقم لگانے والے کی ضرورت ہے“۔ یہاں فلم میں ان فُقروں کیلئے رقم لگانے والی کی اینٹری ہوتی ہے۔ ریچا چڈافلم کی ہیروئن کے کردار میں نظر آتی ہے۔ بدزبان ، سخت لہجے اور گالی گلوچ کرنے والی اس لڑکی میں پنجابن کی ادا بھی ہے اور ڈان کارعب بھی۔چاروں فُقرے ریچا چڈا سے پیسے ادھار لیتے ہیں ۔ اس کے بعد جیسا سب سوچتے ہیں ویسا ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہی فلم کی آگے کی کہانی ہے۔

”فُقرے“ آپ کو ”ایک چالیس کی لوکل “، اوئے لکی لکی اوئے“اور” دلی بیلی “ جیسی فلموں کی یاد دلاتی ہے، جہاں پر کچھ لوزرز جلدی امیر ہونے کے چکر میں خود چکر کھاتے نظر آتے ہیں۔ جیسے جیسے فلم کی کہانی آگے بڑھتی ہے فُقرے مزید مشکلات میں پھنستے جاتے ہیں اور انہیں مشکلات کے سمندر میں ڈوبتا ابھرتا دیکھ کر دیکھنے والے خوب مزے لیتے ہیں۔
فلم میں کچھ اچھے مزاحیہ سین ہیں جو آپ کوگدگداتے ہیں اور ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ کہانی البتہ تھوڑی سست ہے ساتھ ساتھ فلم کے کچھ گانے اسے مزید بور کرتے ہیں۔ رام سمپت کی دی گئی موسیقی ان کی گزشتہ ترتیب دی گئی موسیقی کی طرح مقبول نہیں ہوئی، اس کے باوجود گانے ”رمپا“، ”جوگاڑ “اور ”فُقرے“قدرے بہتر ہیں ، جبکہ فلم کا بہترین تصور کیا جانے والا گانا ”امبر سریہ “بھی کہیں کھو گیا ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر مریندیپ سنگھ لامبا کی گزشتہ فلم ”تین تھے بھائی“ بری طرح فلاپ ہوئی تھی ۔ کامیڈی فلم ہونے کے باوجودیہ فلم دیکھنے والوں کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی نہ لاسکی ۔ اب دو سال کے بعد فلم ”فُقرے “کی ریلیز پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈائریکٹر مریندیپ سنگھ لامباکے کام میںپچاس فیصد بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ چار نوجوان اداکاروں سے بہترین اداکاری کروانا بھی ان کے کریڈٹ میں آتا ہے۔ امید ہے ڈائریکٹر مریندیپ سنگھ لامبا اگلی مرتبہ شائقین کو سو فیصد کامیڈی فراہم کریں گے۔

اداکاری کی بات کریں تو پلکت سمراٹ نے اداکاری کا آغاز فلم ”بٹو باس “سے کیا تھا ، جس میں ان کی بری اداکاری کے باعث ان کے کردار پر کسی کی نظر نہیں پڑی ۔البتہ اس مرتبہ وہ شائقین کو اپنی معصومیت سے متاثر کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ورون شرما کی یہ پہلی فلم ہے ۔ اس کے باوجود وہ فلم کے بہترین کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ اگر ان کا کردار فلم سے نکال دیا جائے تو بے شک فلم پھیکی لگے گی۔ فلم ”اوئے لکی لکی اوئے “ سے فلم کیریئر کا آغاز کرنے والے منجوت سنگھ کی اداکاری بھی سراہنے کے لائق ہے۔ علی ا فضل ایک اچھے کردار میں نظر آئے ۔ فلم کی ہیروئن پریا آنندآخری مرتبہ فلم” انگلش ونگلش “میں نظر آئی تھیں۔ انہوں نے اپنا کردار بہترین انداز میں نبھایا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس فلم میں تھوڑا بہت دم ہے۔باکس آفس پر کچھ خاص نہیں کما سکی البتہ یہ فلم ایک اچھا ٹائم پاس ثابت ہو سکتی ہے۔

بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان یہ فلم دیکھ کر نئے اداکاروں کی اداکاری سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوںنے ”فُقرے “کی ٹیم کو اپنے گھر دعوت پر بلا لیا ۔ اس حوالے سے شاہ رخ خان کا کہنا تھا کہ یہ فلم دیکھ کر ان کی بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں۔

میرے حکمران اور میرا وطن اعلیٰ شان


سنہ انیس سو سنتالیس میں جب میرا ملک پاکستان قیام میں آیا ، اس وقت اسے بہت سے مسائل درپیش تھے ، لیکن آج میرے ملک کو جن مسائل نے گھیر رکھا ہے ان میں سرفہرست ملک پر حکمرانی کرنے والے حکمران ہیں ، جو حکومت کی غرض سے وطن ِ پاک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے میرے آزاد ، خود مختار عظمِ اعلیٰ شان کی شان مٹی میں ملا دی ہے ، اسے دیمک کی طرح چاٹنے والے اور کوئی نہیں ہمارے راہنماں ، حکمران ہی ہیں ، جنہیں ہم سیاستدان کہتے ہیں

، جن کے ذہنوں پر صرف کرسی ، عہدہ اور پیسہ سوار ہے۔ اعوام کو غریب ، مسکین اور بیچارہ کہنے والے ، ایک دوسرئے پر الزام تراشی کرنے والے ، اپنے مفادات کیلئے اپنا ایمان بیچنے والے بھوکے ننگے حکمران جو ہر روزاپنے مخالف کے کالے دھندے کا نیا کنواں کھود کر ڈھونڈ لاتے ہیں اسکے باوجود یہ دودھ کے دھلے !! ۔ چمکتے جوتی کپڑے ، لشکارے مارتی گاڑیاں اور لمبے لمبے پروٹوکول کے ساتھ آنیا جانیا دیکھانے والے جب تقریروں میں اپنے آپ کے ہی قصیدے پڑھتے ہیں تو دل ڈوب جاتا ہے ۔ مانا کہ کرپشن ، لالچ ، پیسے کی حوس ہوتی ہے ،انسان جس شعبے سے منسلک ہوتا ہے کسی نہ کسی انداز میں ڈنڈی مارتا ہے لیکن یہ کون سی پیاس ہے جو بجتی ہی نہیں

 ان حکمرانوں کے لالچ کے کنوئے بھرتے ہی نہیں۔انہوں نے میرے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، جہاں ایک طرف یہ خون چوستے کیڑے اور دوسرے جانب قرضوںکے انبار۔ یااللہ میرے ملک میرے وطن اعلیٰ شان کو میرے حکمرانوں سے بچا ، اور ان کی عمر دراز فرما، آمین ۔

پیار ، محبت ،عشق کے کھلاڑی


میں نے سنا ہے میرے شہر کے نوجوان محبت سے باغی ہو کر محبت کرتے ہیں۔ ایسی محبت کرتے ہیں جو کہ محبت کے اصولوں کے منافی ہے ۔ میں اس سوچ میں گم ہوں انہیں کس نے سکھا دی ایسی محبت ۔ محبت کے کھوکھلے اور بے بنیاد اصولوں کا انبار کہاں سے مل گیا انہیں ۔ یہ ایسی محبت کرتے ہیں جو چڑھتے سورج کو پہلا سلام کرتی ہے اور غروبِ آفتاب
کے ساتھ دم توڑ دیتی ہے ،ایک پھول کی کلی سے زیادہ نازک محبت جو نہ محبوب کے ستم سہے نہ ہجرو فراق کے لمحے۔

مطلبی ، لین دین کی محبت ، غلاظت سے بھرپور محبت جسے محبت کہیں تو خود محبت کی توہین ۔ میرئے دوست شاید محبت کا مفہوم بھول بیٹھے ہیں ، جو انس پر پہلا قدم رکھ کر پیار کی سیڑھی چڑھتی ہے ، محبت کی ریاضت میں دل جلا کر عشق کی منزل پاتی ہے ۔ میرئے دوستو، میرئے پیارو، میرئے عاشق مزاج کھلاڑیو چھوڑ دو یہ لین دین کی تجارت اور ایسی محبت

جو محض نفس کا کھیل چاہتی ہے۔ نفس کے کھیل میں ہار ہی ہار ہے اور بربادی بھی اور پاکیزہ محبت تو تزکیہ نفس ہے۔ محبت روح سے روح کا رشتہ ہے وہ رشتہ جو ہمیشہ رہ جانے والا ہو تا ہے اِس دنیا میں بھی اِس دنیا کے بعد بھی۔ یاد رکھو اس اولین محبت کو جو کائنات کی تخلیق سے شروع ہوئی اور روزِ آخر کے بعد بھی جاری رہے گی اور جو صر ف روح کے تعلق قائم کرنے سے ہی ہمیشہ رہ سکتی ہے ۔

Sunday 18 August 2013

میرا مستقبل !! ۔۔۔


ملک پاکستان کا نوجوان آج آپ کی خدمت میں ایک گزارش لے کر حاضر ہوا ہے ، اجازت تو نہیں دیں گے کہ عرض کروںلیکن گستاخ فطرت سے مجبور ہوں ۔
 عرض یہ ہے کہ میرا مستقبل تباہ ہو رہا ہے اور میں حیران و پریشان اور غم زدہ ہوںکے میرے علاوہ کسی کو پروا ہی نہیں!!۔۔۔میں عمر کے اس حصے میں ہوں جب دل و دماغ ، قلب و ذہین کے تمام گوشے روشنی ، جذبے اورجنون سے سرشار ہوتے ہیں ، رگوں میں گرم خون ایسا جوش مارتا ہے کہ ہر روز کامیابی کی سیڑھی چڑھ کر تاروں پر کمند ڈالنے کو جی چاہتا ہے ۔ لیکن میرے ساتھ کچھ مسلہ ہے شاید ، میرے ذہن میں مثبت سوچ کا نام ونشان تک نہیں،بلکہ میری سوچ اس ملک کے

حالات سے پریشان ہو کر دکھ اور ناامیدی کی دلدلوںمیں ڈوب چکی ہے، مجھے میرا مستقبل تاریک تو کیا دیکھائی ہی نہیں دیتا۔میری سمجھ سے بالاتر ہے ، میں سیاسی عینک لگاو ¿ں، کالی عینک لگاو ¿ںیا کسی بزرگ سے اسکے موٹے اور بڑے
چشمے والی عینک مانگ کر لگاوں اور اپنا مستقبل تلاش کروں۔ براے مہربانی میری مشکل آسان کریں اور اس ملک میں میرا مستقبل دیکھنے میں میری مدد کریں، اگر ایسا کرنا بھی مشکل ہے تو پھر اسے سسکتا اور آخری سانسیں لیتے تماشا دیکھیں۔

سروسز ہسپتال حادثہ ۔۔۔۔۔۔ ملزم کون !!

لاہور سروسز ہسپتال حادثے کو کئی ہفتے گزر چکے ہیں، جس میں اب تک 10 معصوم بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ میں سوچتی ہوں جو پھول ہمیشہ کیلئے مرجھا گئے ، ان کے والدین کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے یہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ، کسی کے گھرکی پہلی اولاد ہو گی، کسی کے گھر کئی بیٹوں کے بعد بیٹی کی رحمت برسی ہوگی، کہیں بہنوں کا پہلا محافظ بھائی پیدا ہوا ہوگا کہیں برسوں سے اجڑے چمن میں پہلے گل نے اپنی خوشبوں بکھیر کر گلدستہ مکمل
کیا ہوگا، نقصان تو ایسا ہوا جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کے احوال سے سرکار کے علاوہ باقی سب ہی واقف ہیں ، سروسز ہسپتال کی نرسری وارڈ کے حال کا بھی اللہ ہی حافظ ہے وارڈ میں گنجائش سے زیادہ سامان اور بچے رکھے گئے ، وارڈ میں کھڑکی اور روشندانوں کی ویسے ہی کمی رکھی گئی تھی ایسے میںاگر کہیں آگ بھڑک اٹھے تو ایک چھوٹے سے دروازہ سے کون کون نکلے گا، حادثہ کے فوراََ بعد معاملہ ہسپتال کے عملہ پرڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وارڈ کا عملہ بھاگ گیا اور معصوم بچوں کو جلنے کیلئے چھوڑ دیا گیا، جبکہ اس کے بر عکس وارڈ میں موجود نرس نے اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں نبھائی اور فرض کو انجام دیتے دیتے خود بھی جھلس گئیں۔ آگ بھڑکنے کے وقت نرسری میں کل25 بچے موجود تھے جن میں سے10 جابحق ہوئے۔ مرنے والے بچوں میں زیادہ تر وہ بچے شامل تھے جنہیں incubator میں رکھا گیا تھا ، incubator میں رکھے جانے والے بچے پیدائشی طور پر بیمار یا پری میچیور ہوتے ہیں ،incubator میں انہیں آکسیجن اور مختلف قسم کی ڈرپس لگی ہوتی ہیں جو انہیں سانس لینے اور زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں، آگ لگنے کے بعد فوری طور پر پہلے ان بچوں کو بچایا گیا جو کہ تندرست تھے ، آکسیجن ماسک کے بغیر سانس لے سکتے تھے ، اگر عملے اور ریسکیو اہلکار کو تھوڑا وقت اور مل جاتا تو ممکنہ طور پر سارے بچوں کو نرسری سے باحفاظت نکالاجاسکتاتھا۔ حادثہ شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آیا یہ بات وہاں موجود ہر انسان جانتاتھا، اس کے باوجود تحقیقات کروانے کا حکم صادر کر دیا گیا، تین چار دن کے اندر تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی جس میں واضح ہو گیا کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث ہی لگی تھی، اب شارٹ سرکٹ اے سی میں ہو یا سوچ بورڈ میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحقیقات کرانے کا مقصد کیا تھا ، بات کی گہرائی میں جانا تھا یا بات کی کھال اتارنا، جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے ، تحقیقات کروانے کا مقصد مجرم تک پہنچنا ہوتا ہے اور اگریہ مقصد پورا نہیں ہوا تو تحقیقات کروانا بے سود ۔ چلیں اب کچھ تنقید اپنے بھولے بھالے سیاستدانوں کی نظر بھی کی جائے ، حادثے کے بعد کئی سیاستدانوں نے سیاسی دماغ چلایا اور سیاست چمکانا شروع کر دی۔ وہ کہتے ہیں نا ڈاکٹر کے پاس جاو گے تو ڈاکٹر کوئی نا کوئی بیماری نکال کر دوا لکھ دے گا، جادو ٹونے والے کے پاس جائیں گے تو ، منا ہی لے گا کہ کالاجادو ہوا ہے یا کم از کم ایک آدھ جن یا پری کا سایہ ہے اور اس کے توڑ کی ضرورت ہے۔ حادثہ کے فوراََ بعد خادم اعلیٰ شہباز شریف موقع پر پہنچ گئے وہ یہی کر سکتے تھے اور انہوں نے کیا بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا، جبکہ دوسری جانب پنجاب میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا ظرف دیکھیں، سروسز ہسپتال گئے تو متاثرہ بچوں کی عیادت کرنے لیکن سیاستدان جو ٹھہرے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا معاملہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر ڈال کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ، اس سے بھی سکون نہ ملا تو متاثرہ خاندانوں سے اپیل کر ڈالی کے کہ وہ شہباز شریف کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں۔ اب راجہ ریاض کو کون سمجھائے کہ ایسے موقوں پر ایسی باتیں زیب نہیں دیتی، لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ جس ٹھیکیدار نے یہاں بجلی کی تاریں بچھانے اور سوچ بورڈ لگانے کا کام کیا اسے شاملِ تفتیش کیوں نہیں کیا گیا ، اس سے پوچھا گیا نہ معاملے میں ملوث کیا گیا ، یہ سوال اس سے کرناچاہئے تھا کہ کمرہ میں کی جانے والی وائیرنگ اور استعمال ہونے والے سوچ بورڈ کے معیار میں کمی کیوں رکھی گئی، جلنے والا سوچ بورڈ اور شارٹ سرکٹ کا باعث بننے والی تاریں معمولی نوعت کی تھیں اسی لیئے اے سی کیلئے درکار بھاری وولٹیج برداشت نہ کر سکیں اوران میں آگ بھڑک اٹھی، سیاسی شخصیات کو معاملا میں ملوث کرنے کی بجائے بنیادی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ، لیکن یہاں پر ہر معاملا ہی الٹاہے، وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے، ُّان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے مجنو نظر آتی ہے ، لیلیٰ نظر آتا ہے خیر ہم ان بچوں کا مجرم ڈھونڈنے نکلے تھے ، جو پاکستان میں آج تک کسی کو نہیں ملا ، میں نے بھی اپنی سی کوشش کر لی اور اب اس دعا کے ساتھ معاملہ اوپر والے پر ہی چھوڑ دیتی ہوں کہ اللہ مرنے والوں کو جنت نصیب کرئے اور ان کے والدین کو صبر عطا فرمائے، آمین۔

Saturday 17 August 2013

آﺅ خواب دیکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔نیا پاکستان بنائیں ۔۔۔۔

قائد اعظم کے خواب اور علامہ محمد اقبال کے تصور کے نتیجے میں وجود میں آنے والے وطن پاکستان میں سسک سسک کر جلنے مرنے اور پھر بھی زندہ رہنے والی عوام اور شہنشاوں جیسی زندگی گزارنے والے حکمران متوجہ ہوں ! ۔۔ ۔۔

 آج ہم سب مل کر ایک خواب دیکھیں ، جس میں طلوع آفتاب کی روشنی ہمارے تن من ، روح و باطن نیز ذہن کے ہر گوشے میں روشنی بھر دے ، ایک ایسا خواب جسے دیکھنے کے بعد اس کی تعبیر سانس لینے سے زیادہ ضروری ہو جائے ۔ ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھتی نا امید آنکھیں ایسا پاکستان تعمیر کریں کہ ہر شخص اس کا باسی بننے کی تمنا کرے، ایک ایسا پاکستان جس میں کوئی دکھی غمگین نہ ہو،بھوک و افلاس نہ ہو، کوئی امیر غریب نہ ہو ، مجرم ، دہشت گرد نہ ہوں، جہاں بندوق اور بم چلتے نہ ہوں، جہاں پیار کی بولی کا راج ہو، جہاں سب نمازی و پرہیز گار ہوں، جہاں دلوں میں نفرتوں کے کانٹے نہیں ، صرف پیار کے گل و گلزار ہوں، ایک ایسا پاکستان ہو جہاں پارٹیاں ، فرقے ، انتشار نہ ہو، صرف ایک جھنڈا سبز ہلالی ہو، اسلام کا بول بالا ہو، جہاں ماں سے لال جدا نہ ہوں، جہاں کوئی بہن ، بیٹی ، بیوی ، ماں بے آبرو نہ ہو، جہاں عزتیں سرعام پامال نہ ہوں، جہاں خوف و حراس نہ ہو، صرف ایک ایسا پاکستان ہو، جہاں خوشیوں کی بہار ہو، سکھوں کا سویرا ہو،ہر دن نیا پیغام ہو۔

یوم نجات


آج ہمارے لئے ایک اہم اور خوشی کا دن ہے، ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم میں قوت برداشت کا کمال جذبہ ہے، جس طرح سے میں نے اور آپ نے پانچ سال اس برائے نام جمہوریت کو گھسیٹنے والی حکومت کا ساتھ دیا ہے، اس کیلئے ہماری ہمت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔

 ان بوسیدہ بیماریوںسے ہماری جان چھوٹ چکی ہے جو ہمیں پانچ سال سے دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی، آج ہمارے ملک میں لگایا جانے والا ایک نعرہ اور (One rule that is no rule ) والا نظام ختم ہو چکا ہے، آج ہماری نجات کا دن ہے،وہ نجات جو ہمیں لوٹنے گھسوٹنے والے سیاستدانوں کی شکل میں خون چوسنے والے گندے کیڑوں سے ملی ہے۔

 آج ہمارا ”یوم نجات “ہے، جسے ہمیں اس نیت اور سوچ کے ساتھ منانا چاہئے کہ اگر آئندہ اس ملک میں اس قسم کی حکومت نے پر پھیلائے جو جمہوریت کے نام پر دھبہ ہو گی تو انشاءاللہ اس کے پر کاٹ دیئے جائیں گے، روشن پاکستان کے خواب کے ساتھ میری جانب سے تمام پاکستانیوں کو یوم نجات مبارک ہو، یا اللہ میرے ملک کو آستینوں کے سانپوں سے بچا اور اس کی حفاظت کر، آمین ۔

Saturday 3 August 2013

اٹھارہ کروڑاعوام کے نام

مہنگائی ، کرپشن ، لوڈ شیڈنگ ، غربت وافلاس ، بے روز گاری ، بم حملے ، ٹارگٹ کلنگ ، لوٹ مار ، لڑائی جھگڑے اور قدرتی آفات سے بچ جانے والی اٹھارہ کروڑ اعوام کو میرا سلام !
کیا آپ جانتے ہیں کہ آج کل سیاست دانوں میں آپ کی کتنی مانگ ہے؟

 دن رات اٹھارہ کروڑ اعوام کا دم بھرنے والے اور اپنے آپ کو اعوام کا حامی کہنے والے سیاستدانوں میں پیسے کی ہوس کم اور اٹھارہ کروڑ اعوام کے ووٹ کی ہوس زیادہ ہے اور کہیں ہو نہ ہو لیکن ان سیاست دانوں میں اٹھارہ کروڑ اعوام کی مانگ بہت زیادہ ہے یہ مانگ دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ ہر پاڑٹی کے ممبران، سیاست دان ، موجودہ حکمران ، اپوزیشن ، اسلامی جماعتوںکے ذریعے اسلام کا نعر ہ بلند کرنے والے ،نیز وہ ہر شخص جو سیاست کے میدان میں دھماچونکڑی مچا رہا ہے یا اس میدان میں کودنے کی تیاری کر رہا ہے ، رات میں سونے سے پہلے ، سونے کے بعد ، جاگنے سے پہلے اور جاگنے کے بعد اٹھارہ کروڑ اعوام کے خواب دیکھتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ کو اٹھارہ کروڑ اعوام کے سہانے خواب آتے ہیں اور کچھ کو ڈرونے ، اب یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کسے اٹھارہ کروڑ اعوام کے سہانے خواب آتے ہیں اور کسے ڈرانے ۔

ٓٓآیئے اٹھارہ کروڑ اعوام کی اس بڑھتی ہوئی مانگ پر ایک نظر ڈالتے ہیں ، شروع کرتے ہیں ، صدر مملکت سے جو کہتے ہیں کہ وہ اٹھارہ کروڑ اعوام کے منتخب کردہ صدر ہیں ، انہیں اٹھارہ کروڑ اعوام نے ووٹ
ڈال کر صدر بنایاہے ، وزاعظم صاحب کہتے ہیں کہ وہ اٹھارہ کروڑ اعوام کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ، (ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے شریف لوگ کہتے ہیں کہ اٹھارہ کروڑ اعوام ان کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کرکے صدر اوران کے وزیراعظم کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دے ، جبکہ سونامی کی پیشن گوئی کرنے والے عمران خان کہتے ہیں کہ اٹھارہ کروڑ اعوام حکمرونوں کا بائیکاٹ کر کے انہیں ووٹ دیں ۔ بے چاری اٹھارہ کروڑاعوام جائے بھی تو کہاں ہر کوئی تو اسے اپنی طرف کھینچے کی کوشش میں ہے ۔ سیاستدان جو ہمارے ووٹ لے کر ہمارے اوپر ہی حکومت کرنے آبیٹھے ہیں اور اب ہمیں آنکھیں دیکھا رہئے ہیں ، ہماری زندگی کو مشکل سے مشکل ترین بنا رہئے ہیں ، ہمارے ووٹ ہماری حماعت کے مقروض ہیں، اٹھارہ کروڑ اعوام اتنی تو طاقت رکھتی ہے کہ جسے چاہئے اقتدارمیں لے آئے اور جس کی چاہئے نیندیں حرام کر دے ۔ ۔۔