Sunday 18 August 2013

سروسز ہسپتال حادثہ ۔۔۔۔۔۔ ملزم کون !!

لاہور سروسز ہسپتال حادثے کو کئی ہفتے گزر چکے ہیں، جس میں اب تک 10 معصوم بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ میں سوچتی ہوں جو پھول ہمیشہ کیلئے مرجھا گئے ، ان کے والدین کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے یہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ، کسی کے گھرکی پہلی اولاد ہو گی، کسی کے گھر کئی بیٹوں کے بعد بیٹی کی رحمت برسی ہوگی، کہیں بہنوں کا پہلا محافظ بھائی پیدا ہوا ہوگا کہیں برسوں سے اجڑے چمن میں پہلے گل نے اپنی خوشبوں بکھیر کر گلدستہ مکمل
کیا ہوگا، نقصان تو ایسا ہوا جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کے احوال سے سرکار کے علاوہ باقی سب ہی واقف ہیں ، سروسز ہسپتال کی نرسری وارڈ کے حال کا بھی اللہ ہی حافظ ہے وارڈ میں گنجائش سے زیادہ سامان اور بچے رکھے گئے ، وارڈ میں کھڑکی اور روشندانوں کی ویسے ہی کمی رکھی گئی تھی ایسے میںاگر کہیں آگ بھڑک اٹھے تو ایک چھوٹے سے دروازہ سے کون کون نکلے گا، حادثہ کے فوراََ بعد معاملہ ہسپتال کے عملہ پرڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وارڈ کا عملہ بھاگ گیا اور معصوم بچوں کو جلنے کیلئے چھوڑ دیا گیا، جبکہ اس کے بر عکس وارڈ میں موجود نرس نے اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں نبھائی اور فرض کو انجام دیتے دیتے خود بھی جھلس گئیں۔ آگ بھڑکنے کے وقت نرسری میں کل25 بچے موجود تھے جن میں سے10 جابحق ہوئے۔ مرنے والے بچوں میں زیادہ تر وہ بچے شامل تھے جنہیں incubator میں رکھا گیا تھا ، incubator میں رکھے جانے والے بچے پیدائشی طور پر بیمار یا پری میچیور ہوتے ہیں ،incubator میں انہیں آکسیجن اور مختلف قسم کی ڈرپس لگی ہوتی ہیں جو انہیں سانس لینے اور زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں، آگ لگنے کے بعد فوری طور پر پہلے ان بچوں کو بچایا گیا جو کہ تندرست تھے ، آکسیجن ماسک کے بغیر سانس لے سکتے تھے ، اگر عملے اور ریسکیو اہلکار کو تھوڑا وقت اور مل جاتا تو ممکنہ طور پر سارے بچوں کو نرسری سے باحفاظت نکالاجاسکتاتھا۔ حادثہ شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آیا یہ بات وہاں موجود ہر انسان جانتاتھا، اس کے باوجود تحقیقات کروانے کا حکم صادر کر دیا گیا، تین چار دن کے اندر تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی جس میں واضح ہو گیا کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث ہی لگی تھی، اب شارٹ سرکٹ اے سی میں ہو یا سوچ بورڈ میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحقیقات کرانے کا مقصد کیا تھا ، بات کی گہرائی میں جانا تھا یا بات کی کھال اتارنا، جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے ، تحقیقات کروانے کا مقصد مجرم تک پہنچنا ہوتا ہے اور اگریہ مقصد پورا نہیں ہوا تو تحقیقات کروانا بے سود ۔ چلیں اب کچھ تنقید اپنے بھولے بھالے سیاستدانوں کی نظر بھی کی جائے ، حادثے کے بعد کئی سیاستدانوں نے سیاسی دماغ چلایا اور سیاست چمکانا شروع کر دی۔ وہ کہتے ہیں نا ڈاکٹر کے پاس جاو گے تو ڈاکٹر کوئی نا کوئی بیماری نکال کر دوا لکھ دے گا، جادو ٹونے والے کے پاس جائیں گے تو ، منا ہی لے گا کہ کالاجادو ہوا ہے یا کم از کم ایک آدھ جن یا پری کا سایہ ہے اور اس کے توڑ کی ضرورت ہے۔ حادثہ کے فوراََ بعد خادم اعلیٰ شہباز شریف موقع پر پہنچ گئے وہ یہی کر سکتے تھے اور انہوں نے کیا بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا، جبکہ دوسری جانب پنجاب میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا ظرف دیکھیں، سروسز ہسپتال گئے تو متاثرہ بچوں کی عیادت کرنے لیکن سیاستدان جو ٹھہرے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا معاملہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر ڈال کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ، اس سے بھی سکون نہ ملا تو متاثرہ خاندانوں سے اپیل کر ڈالی کے کہ وہ شہباز شریف کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں۔ اب راجہ ریاض کو کون سمجھائے کہ ایسے موقوں پر ایسی باتیں زیب نہیں دیتی، لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ جس ٹھیکیدار نے یہاں بجلی کی تاریں بچھانے اور سوچ بورڈ لگانے کا کام کیا اسے شاملِ تفتیش کیوں نہیں کیا گیا ، اس سے پوچھا گیا نہ معاملے میں ملوث کیا گیا ، یہ سوال اس سے کرناچاہئے تھا کہ کمرہ میں کی جانے والی وائیرنگ اور استعمال ہونے والے سوچ بورڈ کے معیار میں کمی کیوں رکھی گئی، جلنے والا سوچ بورڈ اور شارٹ سرکٹ کا باعث بننے والی تاریں معمولی نوعت کی تھیں اسی لیئے اے سی کیلئے درکار بھاری وولٹیج برداشت نہ کر سکیں اوران میں آگ بھڑک اٹھی، سیاسی شخصیات کو معاملا میں ملوث کرنے کی بجائے بنیادی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ، لیکن یہاں پر ہر معاملا ہی الٹاہے، وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے، ُّان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے مجنو نظر آتی ہے ، لیلیٰ نظر آتا ہے خیر ہم ان بچوں کا مجرم ڈھونڈنے نکلے تھے ، جو پاکستان میں آج تک کسی کو نہیں ملا ، میں نے بھی اپنی سی کوشش کر لی اور اب اس دعا کے ساتھ معاملہ اوپر والے پر ہی چھوڑ دیتی ہوں کہ اللہ مرنے والوں کو جنت نصیب کرئے اور ان کے والدین کو صبر عطا فرمائے، آمین۔

1 comment: