Tuesday 23 September 2014

Lams.....short Story.....افسانہ ۔۔۔۔۔لمس ........


راحیل کو اس کمرے میں بیٹھے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا، کمرے کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس کی آنکھیں تھک کر اس دروازے پر ٹک گئیں جہاں سے اس شخصیت نے آنا تھا جس کی خاطر وہ اتنا ذلیل و خوار ہو رہا تھا۔ 
قریب ایک گھنٹہ 17 منٹ کے طویل انتظار کے بعد دروازے سے ایک وجودکمرے میں داخل ہوا، جسے دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کھڑا ہو گیا، جبکہ کمرے میں داخل ہونے والی اس مخلوق کو یہ گمان ہوا کہ اس لڑکے نے اس کے اعزاز میں
اپنی نشست چھوڑی ہے۔
راحیل پہلی مرتبہ کسی کوٹھے پر آیا تھا ۔ وہ یہاں کے آداب اور رسم و وراج سے ناواقف ضرور تھا البتہ اس کا ہوم ورک مکمل تھا۔ 
 جرنلزم کا سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے راحیل اپنے فائنل پروجیکٹ میں کوئی ایسا کارنامہ کرنا چاہتا ہے کہ اس کے کلاس فیلوز اوراساتذہ اس کی ذہانت اور نرالی سوچ کے قائل ہو جائیں۔ اس لیئے وہ یہاں اس لڑکی کے سامنے بیٹھا تھا۔ 
کنول کوٹھے پر پیدا ہوئی اوریہی کی ہو کر رہ گئی ، باہر کی دنیا اور اس میں رہنے والے لوگ اس کیلئے خلائی مخلوق تھے۔ کنول ابھی اس پروفیشن کا حصہ نہیں بنی تھی لیکن جلد از جلد اس میں مہارت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس کی ٹریننگ کسی خود کش بمبار کی طرح کی گئی تھی، جسے زندگی کے تمام پہلوﺅں سے ناآشناکر کے ہجوم کے بیچ و بیچ خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ ہر روز اسے اس بات کیلئے تیار کیا جاتا کہ وہ ایک طوائف ہے ، بے بنیاداور جھوٹی محبت کے میٹھے لڈو ہر روز اسے کھلائے جاتے اور کانوں میں شیریں لہجے کا رس گھولا جاتا، تاکہ وہ ہر معیار پر پوری اترے ۔اس غلیظ پیشے میں کام آنے والے تمام گر اس کے خمیر میں گندھے گئے تھے۔ 
راحیل خاص طور سے یہاں کنول سے ملنے اور اس کا انٹرویو کرنے آیا تھا کیونکہ وہ جاننا چاہتا تھاایک ۔۔طوائف۔۔طوائف بننے سے پہلے کیا سوچتی ہے اور کیوں اس غلاظت میں کود جاتی ہے۔ 
رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد راحیل اس لڑکی کی تمام تر تیاری اور انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے گویا ہوا، ”مس کنول، آپ جانتی ہیں میں یہاں کیوں آیا ہوں ، مزید وقت ضائع کیے بغیر میںآپ کا انٹر ویو کرنا چاہتا ہوں۔

کنول انتہائی پرسکون نظر آ رہی تھی، البتہ وہ بار بار اپنی سیاہ اور سندلی رنگ کی ریشمی ساڑھی کا پلو کاندھے پر درست کرتی اور پاﺅں کو اس طرح سے حرکت دیتی کہ اس کی پائل چھنک جاتی۔ اس حرکت سے راحیل مزید بے چین اور مضطرب ہوجاتا، وہ کچھ کہتے کہتے رک جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ راحیل نے ابھی تک اس کے چہرے کو غورسے نہیں دیکھا تھا کیونکہ کمرے میں داخل ہونے اور اس کے پاس آ کر بیٹھنے کے دوران ایک نظر جو اس نے کنول پر ڈالی تھی وہ اس کی آنکھوں کے رنگ میں ہی اٹک کر رہ گئی تھی۔ آنکھیں بھلے جیسی بھی ہوں پر وہ رنگ سمجھ سے باہر تھا۔ اسے ان آنکھوں میں قدرت کے ان دیکھے رنگوں کی جھلک نظر آئی جسے وہ بار بار دیکھنا چاہتا تھا۔ 
”آپ طوائف کیوں بننا چاہتی ہیں“ راحیل نے پہلا اور انتہائی بے تکا سوا ل کیا ۔ جس کے جواب میں کنول نے اسے چونک کر دیکھااور کتنی ہی دیر اس کا چہرہ تکتی رہی ، وہ راحیل کی کالی سیاہ آنکھیں کھنگالتی رہی۔ راحیل کے نظر جھکانے اور پھر اٹھا کر کنول کو دیکھنے تک اس کی آوارہ نظریں اس کے چہرے پر آوارہ گردی کرتی رہیں۔ 
”بہتر ہوگا اگر آپ میرے سوال کا جواب دیں “، کچھ دیر بعد راحیل نے کنول کی آوارہ نظروں کو ٹوکتے ہوئے کہا۔ 
راحیل کی آواز نے اسے چونکا دیا ، وہ اس انداز سے مسکرائی کہ اسے اپنی نظر کی بے باقی پر فخر ہو۔
”آپ ہمارے بارے میں کیا جانتے ہیں اور کیا جاننا چاہتے ہیں؟“، کنول نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا
راحیل نے اپنا سوال دوبارہ دوہرایااور جواب کا انتظار کرنے لگا۔ 
”آپ محبت کے بارے میںکیا جانتے ہیں ؟“کنول کے اس سوال کے جواب میں راحیل نے کچھ کہنا چاہا البتہ یہ سوچ کر خاموش رہا کہ اب جویہ بولی ہے تو بہتر ہے اسے ہی بولنے دیا جائے۔ 
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کنول کی غائب سوچ کہیں دور دراز کی دنیا سے ہو کر واپس وہاں حاضر ہوئی اور اس نے فلسفے کے کسی پروفیسر کی طرح وہیں سے بولنا شروع کیا جہاں سے چھوڑا تھا، ”آپ کیلئے محبت کیا ہے ، میں نہیں جانتی ۔ لیکن ہمارے ہاں محبت آوارہ ہے،یہ کہیں بھی کیسے بھی گھس آتی ہے،اس کے ہاں اجازت لینے اور دستک دینے کا کوئی رواج نہیں، بس اسیر کر لیتی ہے اور پھر اپنی مرضی چلاتی ہے، خوب رسوا کرتی ہے، چٹان جیسے پتھر دل کو موم بنا دینے میں اسے وقت نہیں لگتا“۔ 
کنول کے اس فلسفہ میں راحیل کو کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ یہ اس کے سوال کا جواب نہیں تھا، اسے کنول کی عقل پر ہنسی آ رہی تھی جو بازار میں بیٹھی تھی اور ایک مرد کو محبت پر قائل کرنے چلی تھی۔ 
”مجھے محبت اتنی پسند ہے کہ اپنی روزی بھی اسی کے ذریعے کمانا چاہتی ہوں۔ ایک ایسی عورت بننا چاہتی ہوں جس کا دل محبت سے سرشار ہو، جواپنے ہاں آنے والے ہر پیاسے کو محبت کے دریا سے سیراب کر دے، جس کی محبت کے قصے ہر کسی کی زبان پر ہوں ۔“

”تمہاری اور تمارے اس فلسفے کی ہماری دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ، یہ صرف تمہارا گمان ہے کہ ہمارے معاشرے کو تمہاری ضرورت ہے، تمہیں نہیں لگتا یہ گناہ ہے، برا کام ہے، غلاظت ہے؟“کنول کی بات کاٹتے ہوئے راحیل نے بہت سارے سوال ایک ساتھ کر دیئے۔ ”کنول نے پہلی بات وہیں چھوڑتے ہوئے دوبارہ بولنا شروع کیا ”میں یہ سوچتی ہوں اس دنیا میں وہ گناہ ، گناہ نہیں ، جس کاجواز گناہ کرنے والے کے پاس موجودہو۔ چور ی کرنا کسی کی کی جان لے لینا گناہ ہے۔ لیکن بھوکے کا روٹی چرانا اور سزائے موت کے قیدی کو لٹکا دینا گناہ نہیں کہلاتا ۔اگر گناہ میں پڑنے والا شخص آپ کو قائل کر لے کہ یہ سب وہ مجبوری یا کسی جواز کے تحت کر رہا ہے تو آپ کیا کہیں گے؟
کسی بھی جاندار کی جان لینا یا اس کا خون بہانا گناہ ہے۔ ہمارے ہاں قصائی ہر روز کتنے جانوروں کی گردن پر چھری پھیر دیتا ہے۔ کسی بھی جاندار کی جان اپنے مزے کیلئے نکال لینا گناہ ہے، لیکن اگر چھری پھیرنے سے پہلے ”اللہ ھو اکبر“پڑھ لیں تویہ گناہ نہیں رہتا، حرام نہیں بلکہ حلال ہو جاتا ہے۔ ”اللہ ھو اکبر“ایک جواز ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو نعمت کے طور پر بخشا ہے۔میرے پاس بھی اس کام کا جواز ہے ، جس کے بعد یہ میرے لیے حرام یا برا کام نہیں رہتا“۔
راحیل پڑھا لکھا، باشعور لڑکا تھا ، اس کے باوجود وہ اس ان پڑھ ، جاہل اور اپ کمنگ طوائف کی باتوں کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ 
جب وہ اس جگہ آیا تو اس کے دل میں کنول کیلئے کوئی جذبات نہیں تھے ، اب بھی اس نے کچھ خاص محسوس نہیں کیا تھا ۔لیکن پھر بھی وہ چاہتا تھا کنول اس کام میں نہ پڑے ،یہ بات وہ کنول سے یہ کہہ دینا چاہتا تھا ، لیکن اس کے بر عکس وہ کنول کی باتیں سن رہا تھا،ا نہیں دماغ کی کسوٹی پرپرکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کا جائزہ لے رہا تھا۔
اچانک کنول کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ، اس کا فلسفہ جاری تھا، ”جس کے پاس جو چیز زیادہ ہوتی وہ اسے خیرات کر دیتا ہے، میرے پاس محبت زیادہ ہے، سو میں اسے ہی خیرات کر دینا چاہتی ہوں۔ اس جہاں میں سب کچھ مل جاتا ہے،سوائے محبت کے ،محبت سب سے افضل ہے۔ میں نے دنیا کو صرف اپنے کوٹھے کی اس بالکونی سے دیکھا ہے اور مجھے تو یہی محسوس ہوا کہ اس دنیا میں رہنے والا ہر شخص محبت کے معاملے میں فقیر ہے۔ محبت کے بھوکے ان انسانوں کو سب کچھ خیرات میں مل جاتا ہے، لیکن محبت کے معاملے میں پیاسے ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کا المیہ ہے انہیں محبت لینی آتی ہے پر دینی نہیں آتی ، یہ چاہتے ہیں ان کیلئے ان کی محبت میں ہر کوئی ٹوٹ کر بکھر جائے ، اپنا آپ گنوا دے ، لیکن یہ خود مکمل رہنا چاہتے ہیں،محبت سے لاتعلق اور بنجر دلوں والے ان فقیر وں میں اپنے محبوب کو برباد کردینے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہے،انہیں نہ محبت کی پہچان ہے نہ محبت کرنے والے کی۔ نہ جانے طوائف کی جوٹھی گود میں انہیں کیا سکون ملتا ہے جو سب کچھ داﺅ پر لگا کر آجاتے ہیں ہماری چوکھٹ پر“۔ 

کنول کی باتیں سن کر اسے تھوڑی دیر کیلئے تو یہ گمان ہونے لگا کہ وہ جاہل ہے اور اس کے سامنے بیٹھی اوٹ پٹانگ بکنے والی یہ لڑکی کوئی سکالر ہے جس سے وہ لیکچر لینے آیا ہے۔ اس کا سر چکرانے لگا، وہ انٹر ویو بھول چکا تھا۔اس سے پہلے کہ راحیل اس تھرڈ کلاس ان پڑھ لڑکی کے فلسفے پر قائل ہوجاتا اس نے اپنا ریکارڈ بند کیا، بستہ اٹھایا اور وہاں سے چلتا بنا، سیڑھیا ں اترتے وقت اس کے دل میں ایک مرتبہ ان آنکھوں کاخیال آیا، جنہیں چند لمحے پہلے وہ گھور رہا تھا، اس خیال کے تعاقب میں اسے اپنی اسائنمنٹ کا خیال آیا جس کے فوراََ بعد وہ کوئی دوسرا ٹاپک سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ 

راحیل کا یوں اٹھ کرجانا کنول کے دل پر اثر کرگیا، وہ افسردہ سی ہو کر اسی بالکونی میں کھڑی ہو گئی اور اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے لگی۔ شام ڈھل چکی تھی ، راحیل اور پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اگلا سال چڑھتے ہی وہ 17 برس کی ہو جائے گی، یہ سوچ کروہ اور بھی غمگین ہو گی کہ اس کی آدھی جوانی گزر چکی اور ابھی تک وہ ، وہ نہیں بن پائی جو وہ بننا چاہتی ہے۔کنول شدت سے سوچنے لگی کہ آج تک اس کا سودا کیوں نہیں کیا گیا، ہر روز سودا گر آتے ہیں لیکن کوئی اس کی قیمت نہیں لگاتا۔ ایسی کیا بات تھی کہ سودا ہوتے ہوتے رہ جاتا ۔ 

کنول ابھی اسی سوچ میں غرق تھی کہ اسے آوازپڑی گئی ۔ یقینا آج قسمت نے اسے نہیں بخشا، اس کا سودا ہو چکا تھا۔ 
کچھ ہی دیر بعد ایک درمیانی عمر کا مردا س کے کمرے میں موجود تھا، کنول اس کیلئے لوازمات اکھٹے کر رہی تھی، چائے کی پیالی کنول نے جو پیش کی تو اس محبت کے پیاسے شخص نے جھپٹ کر کنول کی کلائی تھام لی، جیسے کنول اس پیاسے کی پیاس بجھائے بغیر کہیں دور بھاگنے لگی ہو۔ کنول ہڑبڑائی اور چائے کی پیالی اس کے ہاتھ سے گر گئی ، اس نے نظر اٹھا کر اس پیاسے کو دیکھاجسے وہ محبت کے سمندر میں غوطے دینا چاہتی تھی۔ 

لیکن اس شخص کی سفاک سرخ آنکھوں سے ٹپکتی ہوس، چبھتی نظریں اور کلائی پر محسوس ہونے والے اس وحشت ناک اور بیگانے لمس نے کنول کے جسم میں چبھن بھردی ۔ اس کا دل مردہ اور محبت دھواں ہو گئی۔ ان لمحات کے بعد اسے سمجھ آ گیا کہ ہر کسی کو محبت کی بارش میں نہلانے سے پہلے اسے خود محبت کے سمندر میں غوطے کھانے ہوں گے، ڈوبنا ہو گا، اپنی ذات کی نفی کرنی ہوگی۔ اس کے چہرے سے جھلکنے والا کرب اس بات کی گواہی دے رہا تھاکہ محبت آوارہ ہے نہ خیرات کی جاسکتی ہے، ہر کسی کے سامنے اپنے وجود کی نفی کرنا آسان نہیں ، کیونکہ محبت کا لمس کچھ اور ہوتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فواد افضل خان ......Fawad Afzal Khan




بڑا پردہ ہو یا چھوٹا ، فواد افضل خان چمکنے کیلئے بنے ہیں ۔ کیمرہ کی آنکھ ان کی ظاہری خوبصورتی ، خصوصیات اور سحر انگیز شخصیت تو دیکھا سکتی ہیں لیکن کیمرے کا لینز ان کی شائستہ گفتگو ، خوبصورت دل اور مستحکم شخصیت کو نہیں دیکھا سکتا۔ اسی خوبصورت انسان ، اداکار و گلوکار ، ماڈل اور گٹارسٹ کی زندگی پر ایک پھر پور نظر ڈالنے کی کوشش اس مضمون میں کی گئی ہے۔ فواد خان وہ شخصیت ہے جیسا ہونے اور بننے کااکثر لوگ خواب دیکھتے ہیں، ایک جنٹلمین جس کے انداز کسی بھی دل میں گھر کر سکتے ہیں ۔انتہائی سادگی اور شرمیلے انداز سے انہوں نے پاکستان سمیت بیرون ملکوں میں بھی اپنے مداح بنائے ہیں جن میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ فواد نے اداکاری سے شروعات کی ، گلوکاری بھی کچھ عرصہ تک جاری رہی ، جبکہ ماڈلنگ میں بھی جوہر دیکھائے۔ ڈرامہ ہمسفر، زندگی گلزار ہیں، بے حد ان کے بہترین ڈراموں میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔ 

فواد کان اور اداکاری: 
فواد نے اداکاری کے میدان میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ اس سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ،مجھے کالج کے پہلے سال میرے ایک دوست نے ایک کردار کی آفر کی ، یہ کردار ایک بیوقوف کا تھا ، یہ کردار کرنے کے اچھے پیسے مل رہے تھے اس لیے میں نے بنا سوچے سمجھے ہامی بھرلی۔ اس کے بعد میں نے اپنا میوزک بینڈای۔پی کے نام سے شروع کےا۔ اس وقت میرے شادی کا سلسلہ شروع ہوا، اپنے سسرال والوں پر اچھا تاثر ڈالنے کے لیے میں نے 9-5 کی نوکریاں بھی کیں، یہاں تک کہ میں نے باکسز بھی پیک کیے۔ میں بہت موڈی ہوں جب تک میرا دل نہیں کرتا میں کام نہیں کرتا لیکن اب صورت حال مختلف ہے ، مجھ میں ذمہ داری کا احساس ہے کیونکہ بل تو بہرحال مجھے ہی ادا کرنے ہیں۔
اداکاری سے متعلق ان کا کہنا ہے اداکاری کرنا ایک ذمہداری ہے جیسے زیادہ تر اداکار سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اداکار کے کاندھوں پر ایک ذمہداری ہے ، ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے ، غلط اور فرسودہ رسومات کے خاتمے کیلئے ہمارا کردار اہم ہے ۔ اداکاری کے پیسے سے منسلک ہونے والے افراد سے گزارش کروں گا کہ اداکاری ایک مکمل پیشہ ہے اس لیے اس کا حق ادا کیا جائے ۔ مثال کے طور پر میں نے فلم ”خدا کے لیے “ میں اداکاری کی،جس میں موسیقی اور اسلام سے متعلق پیغام دیا گیا جس نے یقینا لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہوگا۔ 
تنقیدی لحاظ سے نہیں کہہ رہا لیکن اب کچھ سال سے ایسا ہی ہے کہ ہمارے ہاں ٹی وی ڈراموں میں مرد اداکاورں کیلئے زیادہ ورسٹائل کردار نہیں لکھے جا رہئے۔ ایسے ہیرو کی ڈیمانڈ زیادہ ہے جو کہ ظالم ہے، اپنی بیوی اور ماں پر ظلم کرتا ہے یا گھریلو جھگڑوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے برعکس ستر اور اسی کی دہایوں میں ایسا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میرا کام مختصر ہے ، مجھے ایک کردار ایک مرتبہ نبھانا ہی اچھا لگتا ہے ،ایک جیسے کردار نبھانے سے میرے اندر اداکاری کا جوش اور جذبہ مدھم پڑ نے لگتا ہے۔ 
فواد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اداکاری کا بہت سکوپ ہے ، ہماری اندسٹری کو اچھے اور مستحکم اداکاروں کی بہت ضرورت ہے۔ فواد خان نہیں سمجھتے کہ وہ جسمانی طور پر بہت فٹ یا غیر معمولی ہیں، جیسا کہ انہیں پاکستان کا پرکشش ترین مرد کہا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان سے بہتر ، بہت بہتر اور قابل لوگ پاکستان میں موجود ہیں ۔ لیکن بات اتنی سی ہے کہ میں سامنے آ گیا ہوں ، اداکار بن گیا ہوں، میں کوشش کرتا ہوں کہ جو بھی کردار کروں اسی میں ڈھل جاوں ، یہی وجہ ہے کہ سکرین پر آڈینس کے ساتھ جڑ جاتا ہوں، میرے بنھائے ہوئے کردار لوگوں کو اپیل کرتے ہیں ، انہیں یاد رہ جاتے ہیں۔ لوگ میری طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کی وجہ میری پر کشش شخصیت یا انداز نہیں ہیں بلکہ میری اداکاری ہے۔ جب تک میں اداکار نہیں بنا تھا میں لوگوں میں اتنا مقبول نہیں تھا۔ 
فواد خان کا کہنا ہے کہ اداکاری سے متعلق ان کی انسپریشن مغرب سے آئی ہے، ’مارلن برینڈو‘، ’پیٹر اوٹولی‘، ’ایلک گنیز‘ ان میں سے چند ایک نام ہیں۔ جبکہ پاکستانی اداکاروں میں موئن اختر اور کوی خان میرے پسندیدہ ہیں۔ 

پاکستان سے بھارت کا سفر : 
پاکستان مےں چاکلےٹ ہےرو کے طور پر مشہور ہونے کے بعد ان کی شہرت نے سرحد پار بھی جھنڈے گاڑنے شروع کر دیئے ہیں۔ بھارت میں فواد اپنی پہلی ڈزنی اور بالی وڈفلم ’خوبصورت‘سے بالی وڈ میں ڈیبیو کر رہئے ہیں۔ سونم نے خود پسند اور خوش باش ڈاکٹر کا کردار اپنے انداز میں نبھایا ہے ،اس کے مقابلے میں فواد خان اپنے کرتا پاجامے میں مدبر اور منظم شخصیت کے حامل نظر آرہے ہیں اور ہر پہلو سے شہزادے ہی محسوس ہو رہے ہیں۔بھارت میں انہوں نے مختلف ٹی وی شوز، کے۔بی۔سی، کامےڈی نائےٹس ود کپل، انٹرٹےنمنٹ کے لیے کچھ بھی کرئے گا، مےں فلم ’خوبصورت‘ کے فروغ کے لیے شرکت کی۔ اس موقع پر بالی وڈ کے بڑے نام جیسا کے امیتابچن ، فرح خان ، انو ملک، اورعامر خان کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اور شوز ان کی شہرت مےں مزےد اضافے کا باعث بنے گے۔ ایک جگہ انٹرویو میں فواد میں نے کہا پاکستان اور بھارت میں کام کر کے بہت کچھ سیکھا ہے میں بحثیت اداکار بھارت گیا ، نئے لوگوں سے ملا،لوگوں سے منسلک ہونے اور تعلقات بنانے آئے۔ جب آپ دوسرے ملکوں کے اداکاروں اور لوگوں سے ملتے ہیں تو آپ ان سے اور انہیں آپ سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بھارت میں انہیں میٹھی بولی بولنے والے انسان سے مخاطب کر کے بھی بلایا گیا ۔ 
بھارت میں دیئے جانے والے نٹرویوز میں میں انہیںاپنے ملک کے نامور فنکاروں کے نام لیتے اور ان کی تعریفیں کرتے سنا گیا، جن میں نور جہاں بھی شامل ہیں ۔ فواد خان کی پہلی بالی وڈ فلم ’خوبصورت‘ ابھی ریلیز بھی نہیں ہوئی کہ فلم اور فواد خان کے چرچے عروج پر پہنچ گئے۔ اس کا اندازہ فلم کے آفیشل’فیس بک‘ پیج سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔یہ پیچ کیالانچ ہوا، 48گھنٹوں کے اندر اندر ہی خواتین فینز کے فواد کیلئے پسندیدگی سے بھرے پیغامات کی بھرمار ہوگئی۔ 
خوبصورت فلم کی پروموشن کے دوران ان سے سوال کیا گیا کیا آپ کو بالی وڈ میں کام آپ کی ایکٹنگ کے بل بوطے پر دیا گیا ہے کہ متاثر کن شخصیت کے باعث دیا گیا ہے ، سوال کا جواب فواد کان دیتے اس قبل پاس ہی کھڑی سونم کپور نے فٹ سے جواب دیا کہ ان کی بہن ریہا کپورنے پہلے فواد خان کی شخصیت سے متاثر ہو کر انہیں اس فلم کی آفر کی البتہ ایکٹنگ ٹیسٹ کے دوران سونم اور ان کی بہن فواد کی اداکارانہ صلاحیتوں کی بھی گرویدہ ہو گئیں۔ فلم کی پروموشن کے دوران اداکارہ سونم کپور فواد خان کے گن گاتے نظر آئیں ۔لیکن، دوسری طرف، خود فواد ’کپور فیملی‘ کے گ ±ن گا گا کر نہیں تھک رہے۔بھارتی میگزین ’انڈیا ٹوڈے‘ نے فواد خان کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپنی غیر معمولی پذیرائی پر خوش بھی ہیں اور کپورز، خصوصاً سونم کپور کے شکر گزار بھی۔ فواد خان کا کہنا تھا، ’انیل کپور صاحب، ریہا اور سونم سب نے مجھ سے ایسا سلوک کیا جیسے میں ان کے خاندان کا ہی ایک فرد ہوں۔ نئی جگہ، نئے ماحول میں آدمی محتاط بھی ہوتا ہے اور مانوس ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ لیکن، کپور فیملی نے اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا۔سونم کپور کی خصوصیت سے تعریف کرتے ہوئے، فواد خان نے کہا ’سونم بہت سوئٹ اور کئیرنگ ہے۔ کبھی کبھی میری شوگر لو ہوجاتی تھی، تو وہ خود جا کر میرے لئے کچھ نہ کچھ لے کر آتی تھی۔ حالانکہ، سونم کی دیکھ بھال اورکاموں کے لئے 10 لوگ موجود ہوتے تھے۔ البتہ فلم کے ٹریلر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فواد خان کے کردار کو سونم کپور کر کردار کے مقابلے میں کم اہمیت دی گئی ہے۔ 
فواد خان پر تنقید : 
 پاکستانی مداحوں کی جانب سے بالی ووڈ میں کام کرنے کے حوالے سے ہونے والی تنقید پر فواد کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے تاہم وہ اپنی رائے دینے کے حقدار ہیں۔ اگر بھارت سے جا کر پاکستان میں کوئی فنکار کام کرے تو پھر بھی ضرور کسی نہ کسی طرف سے شور ہوگا، فواد نے کہا کہ فن ایک ایسی حقیقت ہے جو سرحدوں کا محتاج نہیں ہوتا بطور اداکار مجھے اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے اور اس کے لیے مجھے منفی تنقید نظر انداز کرنا ہوگی، میرا خیال ہے کہ اس طرف توجہ دینا غیر ضروری ہوگا۔

ذاتی زندگی : 
گھومنے اور سیر سپاٹے سے متعلق ا ن کا کہنا ہے کہ جب بھی باہر کہیں گیا تو ہمیشہ کام کے سلسلے میں گیا، ، لیکن اگر کہیں گھونے گیا تو آئس لینڈ میرا پسندیدہ ملک ہے۔ 
 فارغ وقت میں میں ایک بھالو کی طرح ہائبرنیٹ ہو جاتا ہوں ہوں ۔ گھر پر رہتا ہوں، سسرال چلا جاتا ہوں اس کے علاوہ اپنے بیٹے اور بیوی کے ساتھ وقت گزارتا ہو۔ اپنی زوجہ محترم (صدف) کے بارے میں فواد خان کا کہنا ہے کہ وہ ان سے سترہ سال کی عمر میں ملے ، وہ ایک اکیڈمی میں پڑھنے جایا کرتی تھیں میں بھی وہاں ریاضی پڑھنے پہنچ گیا اور کیمسٹری سیٹ کر لی ، حالانکہ شادی کچھ عرصہ بعد کی ۔ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں صدف میرے ساتھ کھڑی رہیں جس کے بعد ان کیلئے میرے دل میں محبت اور عزت بڑھتی گئی ، ہمارا بیٹا ہے (ایان) جس سے ہم دونوں بہت محبت کرتے ہیں ، یہی میرا خاندان ہے اور مجھے اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ 
میوزک البم رلیز کرنے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میں بہت سست رفتار ہوں ، اسی لیے بہت سارے کام کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود بھی کر نہیں پاتا۔ 
فواد افضل خان ذےابےطس کے مریض ہیں، اس حوالے سے ان کا کہنا ہے لوگ ابھی تک ذےابےطس کے بارے مےں آگاہ نہےں ہےں ۔ جب آپکی شوگر کم ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہےں کہ انسولےن کا انجکشن لگوا لو۔ جب مےں کافی ےنگ تھا تب سوئمنگ پول مےں چھلانگ لگاتے ہوتے اےک گہرا زخم لگ گےا تھا اور مےں اےک وائرل انفےکشن مےں مبتلا ہو گےا۔جو بعد مےں شوگر کے مرض کا باعث بن گےا۔

فواد کی اپنے بارے میں رائے : 
ایک انٹر ویوں میں انہوں نے کہا میں جب شیشہ دیکھتا ہوں تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیوں اتنی ساری لڑکیاں مجھ پر فدا ہیں ۔ جب لوگ میری اندرونی شخصیت اور انسان کو بھی کوبصورت کہتے ہیں تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ظاہری خوبصورتی میرے لیے معنی نہیں رکھتی ہے۔ میڈیا میں آنے ، سب کی آنکھوں کا تارہ بننے اور ایک دم سے اتنی شہرت حاصل کرنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میں مینڈک سے شہزادہ بن گیا ہوں۔ 
فواد خان جیسا لازوال ٹیلنٹ پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی میراث ہے، یہ وہ چراغ ہے جس کی روشنی دنیا کے کونے کونے تک پہنچنی چاہئے۔ شائستگی، سادگی، گلیمر اور سحر میں مبتلا کر دینے والی شخصیت کے مالک فواد خان کے کیرئر کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے اور ہم ان کی مزید کامیابیوں کے منتظر ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بینش ولیم جانسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




Wednesday 17 September 2014

”ڈاکوٹا فیننگ “.....Dakota Fanning.....Hollywood


”حنہ ڈاکوٹا فیننگ“ 23 فروری 1994 میں پیدا ہوئیں ۔ اس امریکن ایکٹریس نے اپنی پیدائش کے 6 سال بعد ہی ادہاکاری شروع کر دی اور اگلے ہی سال2001 ءمیں جب ان کی پیدائش کو 7 برس بیت گئے تو وہ اپنا پہلا ایوارڈ حاصل کرنے کیلئے سٹیج کی طرف جا رہی تھیں۔ ڈاکوٹا فیننگ اب تک 35 فلموں اور 13 ڈراموں میں جلوہ گر ہو چکی ہیں ۔ 30 ایوارڈز میں نومینیٹ ہو چکی ہیں ، جن میںسے 15 ایوارڈز انہوں نے اپنے نام کر لئے۔ 

 خاندان : 
 ان کی والدہ” ہیتھر جوئے “(Heather Joy) پیشے سے ٹینس پلیئر رہی ہیں۔ ان کے والد محترم” سٹیون جے فیننگ “(Steven J. Fanning ) مائی نر لیگ بیس بال کیلئے کھیلتے تھے البتہ اب وہ لوس انجلس ،کیلی فورنیا میں ایک الیکٹرونکس سیلز مین ہیں۔ ان کے نانا ”رک آرنگٹن “(Rick Arrington ) سابق امریکی فٹ بال کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ ڈاکوٹا کی آنٹی ”جیل آرنگٹن “ جرنلزم کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ڈاکوٹا کی بڑی بہن ”ایلی فیننگ “(Elle Fanning ) بھی ایک اداکارہ ہیں۔ 

کیریئر : 
2000ءمیں ڈاکوٹا فیننگ ٹاﺅن لیک آرٹس سنٹر میں اداکارہ تھیں اور اسی سال وہ چھوٹے چھوٹے ڈراموں میں اداکاری کرتی نظر آتی تھیں۔ پانچ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ ٹی وی سکرین پر ایک اشتہار میں نظر آئیں ، جبکہ پرائم ٹائم میں لگنے والے ایک ڈرامے میں مہمان کردار کی صورت میں انہوں نے اپنی اداکاری کی پہلی جھلک دکھائی، اسی مہمان کردار کے بارے میں ڈاکوٹا کا کہنا ہے کہ” انہوں نے لوکیمیاں کی شکار ایک لڑکی کا کردار نبھایا ، اس کردار کیلئے انہوں نے (Neck Brace ) پہنے اور ناک میں ڈالنے والی نالیاں پہنیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ٹی وی سکرین پر آنے والے ڈراموں میں بے شمار چھوٹے چھوٹے مہمان کردار کیے ، جن میں ”کرائم سین انوسٹیگیشن “ اور ”سپن سٹی“ نمایا ہیں ۔ 2001 میں انہیں مشہور اداکار (Sean Penn ) کے مد مقابل فلم (آئی ایم سیم) میں کاسٹ کیا گیا۔ اسی فلم میں اداکاری کے نتیجے میں انہیں 
” بروڈ کاسٹ فلم کریٹکس اسوسی ایشن “کی جانب سے سب سے ”چھوٹی بہترین اداکارہ“ کے ایوارڈ سے نوازہ گیا ،جبکہ سکرین ایکٹرز گیلڈ میں نومینیٹ بھی کیا گیا تھا۔ 

فلم ”رن وے“ جو کہ ایک حقیقی زندگی میں خواتین بینڈ کی کہانی پر مبنی فلم ہے، اس فلم میں داکوٹا نے انتہائی چھوٹی عمر میں بولڈ کردار ادا کیا ۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں ایک شرابی اور نشئی لڑکی کا کردار انتہائی عمدگی سے ادا کیا۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ” میرے لیے یہ کردار نبھانہ انتہائی چیلنجنگ تھا، اس کے باوجود میں نے اسے اپنی تمام بساط کے مطابق اچھے طریقے سے نبھایا “۔ انہوں نے کہا کہ” وہ ایک اداکارہ ہیں اور بحثیت اداکار وہ ہر طرح کے کردار میں سمونے کیلئے تیار رہتی ہیں“۔ 

بچپن : 
ڈاکوٹا کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے اب تک ٹی وی میں آ رہی ہیں ۔ اس دوران ان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آیا جب وہ ایک اداکارہ کی حیثیت سے اتنی خوبصورت اور گلیمرس نہیں لگتی تھیں ۔ جب ان کے اگلے دانت توٹے س وقت وہ ہنستی بہت عجیب لگتی تھیں ۔ اسی حوالے سے ڈاکوٹا نے کہا کہ ان دنوں میرے اگلے دانٹ ٹوٹے ہوئے تھے اور کچھ کچھ دانتوں میں بریسس لگے تھے ،مجھے ٹی وی شو پر ایک انٹر ویومیں جانا پڑا جو کی مجھے انتہائی مشکل لگا البتہ میں نے یہ سوچے بغیر کے میں ٹی وی سکرین پر کسی لگوں گی میں وہاں گئی اور انٹر ویو بھی دیا۔ 

سکول: 
ڈاکوٹا نے ایک عام طالب علم کی حیثیت سے سکول میں تعلیم حاصل کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک اچھی طالب علم تھیں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی ۔ انہوں نے خاص طور سے بتایا کہ ہائی سکول میں وہ ”چیئر لیڈر “ تھیںاور انہیں کھیل کے وقفے کے دوران گراونڈ میں تماشائیوں اور کھلاڑیوں کو چیئر اپ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ”مجھے کتاب پڑھنا بہت پسند ہے ، ہر ہفتے کی رات کو ایک کتاب پڑھنا شروع کرتی ہوں اور اگلے ہفتے کی شام تک اسے مکمل کر لیتی ہوں“۔

ڈاکوٹا کے متعلق دلچسپ سچ 
 ڈاکوٹا فیننگ اور اس کی بڑی بہن ” ایلی “(Elle ) نے 11 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک کنٹریکٹ سائن کیا تھا ۔ اس کنٹریکٹ میں لکھا گیا تھا کہ دونوں بہنیں کبھی بھی اپنے جسم پر ٹیٹو نہیں بنوائیں گیں ۔ اس کے باوجود ایک مشہور ٹی وی شو کے دو ران ڈاکوٹا اور ان کی والدہ کے درمیان کیے گئے کنٹریکٹ کو جیلنج کرنے کیلئے ان کے بازو پر ایک مصنوعی ٹیٹو بنایا گیا۔ جس پر ڈاکوٹا نے کہا کہ ان کی والدہ کو ذاتی طور پر ٹیٹو پسند ہیں اور انہیں امید کہ ان کی والدہ کو اس مصنوعی ٹیٹو سے کوئی مسلہ نہیں ہوگا ۔ 

ڈاکوٹا فیننگ اور اور”لینڈو بلوم“ 
 ڈاکوٹا 2001 ءمیں جب اپنی زندگی کا پہلا ایوارڈ حاصل کرنے سٹیج پر گئیں تو ان کی عمر عمر صرف سات برس تھی ۔ عمر کے لحاظ کے ان کا قد بھی کوئی خاص لمبا نہیں تھا۔ ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد جب تقریر کرنے لگیں تو ڈاکوٹا مائیک تک نہ پہنچ سکیں بلکہ ڈایس کے پیچھے چھپ کر رہ گئیں ۔ اس موقع پر مشہور ہالی وڈ سٹار ”اورلینڈو بلوم “جو کہ پاس ہی کھڑے تھے نے انہیں اپنی گود میں اٹھا لیا تاکہ وہ تمام آڈینس کو نظر آ سکیں ۔ اس موقع پر ڈاکوٹا فیننگ جو کہ ایک معصوم سی چائلڈ ایکٹریس تھیں نے لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی ۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اپنے تمام دوستوں ، ساتھ کام کرنے والے اداکاروں اپنے والدین اور جوری ممبران کا شکریہ ادا کیا ۔ ان کی اس معصومانہ تقریر کے دوران تقریب میں بیٹھے تمام خواتین و حضرات کھلکھلا کر ہنستے رہئے اور تقریر کے شاندار انداز پرڈاکوٹا کو دل کھول کر داد دی۔ 

ڈاکوٹا ویمپائر کے کردار میں 
 فلم ”ٹوائی لائٹ “ساگا ”بریکنگ ڈان “(2009-2012 )ءمیں وایمپائر کا کردار نبھانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ”ایک وپمپائر کا کردار نبھانہ میرے بہت مختلف تھا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا جب میں نے اپنے آپ کو منفی کردارمیں ڈھالا۔ اس کیلئے میں نے ویمپائر ز جیسا میکاپ کیا، لال رنگ کے کنٹیکٹ لینز لگائے ۔ ایک سر پھرے ویمپائر کے کردار میں اپنے آپ کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی“۔ مذاح کے موڈ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ”یہ کردار کرنے کے بعد مجھے ویمپائرز سے بالکل ڈر نہیں لگتا البتہ اس بات میں کتنی سچائی ہے یہ اس وقت ہی پتہ چلے گا جب کوئی اصل ویمپائر میرے سامنے آئے گا“۔

ڈاکوٹا اور جھوٹی خبریں : 
گزشتہ ہفتے ڈاکوٹا کی وفات کی خبر نے اس کے چاہنے والوں میں کھلبلی مچا دی۔ ایک سماجی ویب سائٹ پر منظر عام پر آنے والی اس خبر میں ڈاکوٹا فیننگ کے بارے میں لکھا گیا کہ وہ مر چکی ہیں، اللہ ان کی روح کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اس خبر کے فورا بعد ڈاکوٹا کے بے شمار چاہنے والوں نے ان کی وفات کے غم میں تعزیتی جملوں کے ساتھ ان کی کم عمری میں وفات پر دکھ کا اظہار کیا۔ بلا شبہ یہ خبر جھوٹی تھی اور اگلے ہی دن اس کی تردید کر دی گئی تھی۔ 

مس فیننگ نہایت خوش مزاج ، ہنس مکھ، دوستانہ اور پرسکون لڑکی ہے ،ان کا کہنا ہے کہ وہ خوش اور اچھے موڈ میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ ڈاکوٹا فیننگ نہایت شاندار شخصیت کی مالک ہیں ۔ باوقار اور پر کشش شخصیت رکھنے والی اس اداکارہ نے بہت چھوٹی عمر میں ہی کامیابیوں کی سیڑھی چڑھنا شروع کر دی ۔ ان کی کامیابی کی داستانیں ان کے بچپن میں ہی شروع ہو گئی تھیں ۔ اسی لیے ہالی وڈ کے کئی ستاروں کی ان کے بارے میں یہ رائے ہیں کہ” ڈاکوٹا ہماری آنکھو کے سامنے بڑھی ہوئی ہیں“۔ 




”عشق ان پیرس “۔۔۔ ری ویو.......Bollywood Movie.....Ishq In Paris



”عشق ان پیرس “یقینی طور پر ایک محبت کی کہانی ہے، جس میں پریتی اور ریحان ملک مرکزی کردار ادا کر رہئے ہیں ، پریم راج کی ڈائریکشن میں بنی اس فلم کی موسیقی میوزک ڈائریکٹر ز ساجد واجد نے ترتیب دی ہے۔ پیرس کی گلیوں میں بنی اس فلم کو تنقیدی نظر سے تولا جائے تولگتا ہے کہ پریتی اس فلم کو اپنا ”کم بیک “بنانا چاہتی تھیں کیو نکہ وہ خود نہ صرف اس فلم کی پروڈیوسر ہیںبلکہ کہانی کا تمام فوکس بھی انہی کے مرکزی کردار پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلم کی کہانی لکھنے میں بھی پریتی نے کردار ادا کیا ہے، البتہ پریتی اور فلم کے ڈائریکٹر اس کوشش میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو سکے، فلم کی ریلیز اور ابھی تک باکس آفس پر بزنس نے ثابت کر دیا ہے کہ فلم پریتی کے دم توڑتے سٹار ڈم کی سانسیں بحال کرنے میں زیادہ مددنہ کر پائے گی۔ پریتی زنٹا آخری مرتبہ 2008 ءمیں فلم ”ہیروز “میں جلوہ ر ہوئی تھیں ۔


فلم”عشق ان پیرس “ میں پریتی عشق کا کردار ادا کرتی نظر آئیں۔ عشق ایک بھارتی نژاد فرنچ نوجوان لڑکی ہے، جو کہ انتہائی شرمیلی ، حساس اور کبھی نفسیاتی مریضہ کی طرح برتاو کرتی ہے ،باپ کی محبت سے محروم عشق اور اس کی فرنچ ماں ایزابیل ایڈجانی ہی ایک دوسرے کا کل اثاثہ ہیں ، عشق کے والد کا کردار شیکھر کپور نے ادا کیا جو اس کی ماں ایزابیل ایڈجانی اور اسے اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا ہے، عشق کی ماں نے اسے بہت توجہ اور لاڈ پیار سے پالا ، تاہم اس کی شخصیت میں باپ کی عدم موجودگی کے سبب ایک نہ ختم ہونے والا خلا پیدا کر دیا۔


فلم میں پریتی لندن سے آئے ایک لڑکے آکاش سے ملتی ہے ، جو پورا دن ساتھ گزارتے ہیں ، پیرس کی گلیو ں کوچوں اور بازواروں میں گھومتے ہیںاور الگ ہو جاتے ہیں ، ایک دوسرے کو خدا حافظ کہنے کے بعد آکاش اپنے شہر لندن چلا جاتا ہے اور اپنے کام میں لگ جاتا ہے ، لیکن عشق سے دور ہو کر اسے عشق کی محبت میں گرفتار ہونے کا احساس ہوتا ہے، جس پر وہ فوری طور پر عشق سے ایک سماجی ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کرتا ہے۔ اسی عرصہ میں آکاش اپنے ایک دوست کی شادی میں شرکت کے سلسلے میں پیرس آتا ہے ، پیرس آ کر آکاش کو عشق سے ملنے اور اپنی دوستی آگے بڑھانے کیلئے بہترین موقع ملتا ہے جس کا وہ بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے اور عشق سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے ۔ یہاں کہانی میں ایک موڑ آتا ہے جب عشق آکاش کی محبت قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور اسے اپنے راستے جانے کا کہتی ہے، اس موقع پر عشق کی ماں ایزابیل ایڈجانی اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور آکاش کی محبت قبول کرنے کیلئے عشق کو رضا مند کر لیتی ہیں، جس کے بعد عشق اور آکاش کی محبت کی خوشگوار شروعات کے ساتھ فلم اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ فلم کے اختتام پر عشق کیلئے ایک اور خوشگوار لمحہ آتا ہے جب عرصے سے بچھڑے اس کے والد شیکھر کپور اس سے ملتے ہیں ، اس کی ماں ایزابیل ایڈجانی اپنے شوہر کا استقبال شلوار قمیض اور چوڑیاں پہن کر کرتی ہے، جس کے بعد عشق اور اس کی ماں ایزابیل ایڈجانی کی زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔


کہانی میں انگریزی اثر پیدا کرنے میں آکاش کا کردار نبھانے والے ”ریحان ملک “کا حاصا حصہ ہے ۔ عمدہ اداکاری کے ذریعے ریحان نے اپنے کردار کے تقاضے بخوبی نبھائے ہیں۔ پریتی زنٹا البتہ اسی طرح کے ملتے جلتے کردار یورپی ممالک کی لوکیشنز پر پہلے بھی کر چکی ہیں۔ ان کے کردار میں کبھی بھی نیا اور فلم بینوں کیلئے دلچسپی کا سبب دکھائی نہیں دیتا ۔ دوسری جانب آسکر نامزد فرنچ اداکارہ ازابیل کو پریتی کی ماں کے روپ میں دکھانا بھی کچھ درست سلیکشن ثابت نہیں ہوا۔ بالخصوص فرنچ خاتون پر ہندی زبان کی ڈبنگ تو خاصی نامعقول محسوس ہوتی رہی۔ میوزک کے حوالے سے بھی ”عشق ان پیرس “کوئی یادگار نشان نہیں چھوڑ سکی۔ لہذا یہ فلم غالبا سنیما جا کر دیکھنے کی بجائے سی ڈی پر دیکھ لینا ہی بہتر ہو گاتاکہ آپ کوپیسوں کے ضیاع کا افسوس نہ ہو۔


نوجوانوں کے کمروں کی سجاوت......Home Decoration







جوان ،آزاد اور جنگلی نوجوانی میں انسان ایسا ہی محسوس کرتا ہے ،اس عمر میں اکثر انسان بدھکے ہوئے گھوڑے کی طرح برتاو کرتا ہے۔ ایسے میں چابق پیار کا ہو یا غصے کا زیادہ کام نہیں آتا، گھر دل نہیں لگتا اور باہر سکون نہیں ملتا ، دل و دماغ مختلف سمتوں میں چلتے ہیں ، دایاں پیر بائیں پیر سے بغاوت کر بیٹھتا ہے۔ ہر روز نئے شوق کی تلاش میں کبھی اس گلی کبھی اس نکڑ ، ڈال ڈال بیٹھنے اور ہوا میں پنکھ کھول کر اڑنے کی خواہش میں کبھی کوئی غلطی تو کبھی کوئی دھوکا، کوئی استاد سے متاثر ہو گیا،کوئی کسی سیاسی لیڈر سے، کوئی روحانی پیر کے پیچھے لگ گیا تو کسی کو سچا پیار مل گیا، کرنے کیلئے باتیں ہزار ہیں البتہ کچھ کرنے کا وقت نہیں، دل سے جینے اور کچھ کر دکھانے کی امنگ ختم نہیں ہوتی، اسی عجلت کی عمر میں نوجوان ہر وقت مقصد کی تلاش میں رہتے ہیں۔ الجھے الجھے بال لے کر دنیا سلجھانے کے خواب دیکھتے ہیں،اسی عمر میں اگر مناسب توجہ اور سمت دکھا دی جائے تو یہ خواب سچ ہو سکتے ہیں۔ سائیکولوجسٹ کا ماننا ہے کہ ذہنی سکون اور نشونما کا تعلق بہت حد تک گھر کے ماحول سے ہوتا ہے اورایک نوجوان کا کمرہ ماحول بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے اگر اسے عقلمندی اور سلیقے سے نوجوانوں کے ذوق اور شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے سیٹ کیاجائے ۔ 

شوخ رنگو کا استعمال : 
شوخ رنگوں کو زندہ دلی، خوشی اور جوانی کی علامت سمجھا جاتا ہے، ٹین ایج گروپ کے کمروں کی سجاوٹ کرتے وقت رنگوں کا انتخاب سب سے زیادہ اہم ہے۔ گمرے کا پینٹ کروانے ، فرنیچر کی خریداری اور ڈیکوریشن سے قبل اگر کمرے میں رہنے والے کی مرضی بھی جان لی جائے تو یہ بہترین ہو گا۔ لیکن اگر موصوف یا موصوفہ کی اس لحاظ سے کوئی رائے ہی نہیں ہے تو آپ اپنی عقل استعمال کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کیلئے شوخ اور بھڑکیلے رنگوں کا استعمال بہترین ہے، لیکن اس میں بھی سلیقے کی ضرورت ہے ، شوخ رنگوں کا استعمال ہلکے رنگوں کے ساتھ کیا جائے تو زیادہ اچھا لگتا ہے ، جیسا کہ آپ تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں ۔ شوخ رنگوں کا استعمال ہلکے رنگوں کے ساتھ ملا کر یں ۔ اس کیلئے کوئی سی ایک دیوار یا فرش کا انتخاب کریں۔ فرش پر بچھائے گئے کالین کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ لڑکوں کیلئے لڑکوں والے رنگ اور لڑکیوں کیلئے لڑکیوں والے فنکی رنگوں کا انتخاب کیا جائے۔

کمرے میں روشنی کا عمل دخل : 
 ان کے مزاج کے بدلتے رنگوں کی طرح ان کے کمرے کے رنگ بھی بدلنے چاہئیں ۔ کمرے میں روشنی کی کثرت سے آنی جانی چاہئے۔ ان کے کمروں میں کھڑکیاں ، دروازے اور روشندان بنانے میں کنجوسی مت کریں ۔ سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی دل و دماغ پر گہرا اصر ڈالتے ہیں اس کے علاوہ کمرے میں کھڑکیاں، دروازوں اور روشندان کی موجودگی سے انسان قدرت سے قریب رہتا ہے،ہر موسم کی سمجھ بوجھ رہتی ہے۔ سورج کی روشنی دن میں سونے یا صبح دیر تک سوئے رہنے والوں کی عادت کسی حد تک بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ کمرے میں کھلی ہوا کا گزر بسر رہئے تو دماغ کے نوٹس بھی کھلے رہتے ہیں۔ ان کے کمروں میں زیادہ بلب یا ٹیوبلائٹ استعمال کریں اس کے علاوہ ، زیرو کے یا اس سے کم پاور کے بلب بھی استعمال کریں تاکہ پڑھائی کرنے میں مشکل پیش نہ آئے اور کمپیوٹر کا استعمال اندھیرے میں نہ کیا جائے۔ 

کمرے کا فرنیچر اور سجاوٹ : 
ان کے کمروں میں سجانے کیلئے نازک شوپیز ہرگز نہ لائیں۔ آرٹ سے منسلک پینٹنگز یا شوپیسز ان کے کمرے کی زینت بنائیں۔ 
 میوزیکل انسٹرومنٹ جیسے گیٹار، ڈرمز، پیانو، بانسروی، وائلن، ٹرمف، ماوتھ اورگن۔ کھیل سے متعلق چیزیں جیسے فٹبال، باسکٹ بال، ربڑ بال، یا دماغی کھیلوں سے متعلق کھلونے جیسے شطرنج، باکس پزل گیم وغیرہ۔ کوشش کریں کہ ان کے بستر کی بیڈ شیتش رنگ برنگی ہوں ،لڑکی کا کمرہ ہے تو سٹف ٹوئیز اور لڑکے کا کمرہ ہے تو بہت سارے نرم اور رنگ برنگے تکیے رکھے جائیں جن پر اچھلا کودا جائے اور ضرورت پرنے پرا ن سے مارپیٹ بھی لر لی جائے ۔ اگر ان منتشر ذہنوں میں تخلیقی صلاحیات تو اجاگر کرنے کیلئے آپ کی یہ چھوٹی سی کوشش ان کی زندگیوں میں بڑا کام کر سکتی ہے۔ انہیں گھر سے ہی انسپریشن مل جائے تو آپ ان کی آدھی زندگی سنوار دیں گے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بینش ولیم جانسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔