Tuesday 23 September 2014

Lams.....short Story.....افسانہ ۔۔۔۔۔لمس ........


راحیل کو اس کمرے میں بیٹھے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا، کمرے کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس کی آنکھیں تھک کر اس دروازے پر ٹک گئیں جہاں سے اس شخصیت نے آنا تھا جس کی خاطر وہ اتنا ذلیل و خوار ہو رہا تھا۔ 
قریب ایک گھنٹہ 17 منٹ کے طویل انتظار کے بعد دروازے سے ایک وجودکمرے میں داخل ہوا، جسے دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کھڑا ہو گیا، جبکہ کمرے میں داخل ہونے والی اس مخلوق کو یہ گمان ہوا کہ اس لڑکے نے اس کے اعزاز میں
اپنی نشست چھوڑی ہے۔
راحیل پہلی مرتبہ کسی کوٹھے پر آیا تھا ۔ وہ یہاں کے آداب اور رسم و وراج سے ناواقف ضرور تھا البتہ اس کا ہوم ورک مکمل تھا۔ 
 جرنلزم کا سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے راحیل اپنے فائنل پروجیکٹ میں کوئی ایسا کارنامہ کرنا چاہتا ہے کہ اس کے کلاس فیلوز اوراساتذہ اس کی ذہانت اور نرالی سوچ کے قائل ہو جائیں۔ اس لیئے وہ یہاں اس لڑکی کے سامنے بیٹھا تھا۔ 
کنول کوٹھے پر پیدا ہوئی اوریہی کی ہو کر رہ گئی ، باہر کی دنیا اور اس میں رہنے والے لوگ اس کیلئے خلائی مخلوق تھے۔ کنول ابھی اس پروفیشن کا حصہ نہیں بنی تھی لیکن جلد از جلد اس میں مہارت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس کی ٹریننگ کسی خود کش بمبار کی طرح کی گئی تھی، جسے زندگی کے تمام پہلوﺅں سے ناآشناکر کے ہجوم کے بیچ و بیچ خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ ہر روز اسے اس بات کیلئے تیار کیا جاتا کہ وہ ایک طوائف ہے ، بے بنیاداور جھوٹی محبت کے میٹھے لڈو ہر روز اسے کھلائے جاتے اور کانوں میں شیریں لہجے کا رس گھولا جاتا، تاکہ وہ ہر معیار پر پوری اترے ۔اس غلیظ پیشے میں کام آنے والے تمام گر اس کے خمیر میں گندھے گئے تھے۔ 
راحیل خاص طور سے یہاں کنول سے ملنے اور اس کا انٹرویو کرنے آیا تھا کیونکہ وہ جاننا چاہتا تھاایک ۔۔طوائف۔۔طوائف بننے سے پہلے کیا سوچتی ہے اور کیوں اس غلاظت میں کود جاتی ہے۔ 
رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد راحیل اس لڑکی کی تمام تر تیاری اور انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے گویا ہوا، ”مس کنول، آپ جانتی ہیں میں یہاں کیوں آیا ہوں ، مزید وقت ضائع کیے بغیر میںآپ کا انٹر ویو کرنا چاہتا ہوں۔

کنول انتہائی پرسکون نظر آ رہی تھی، البتہ وہ بار بار اپنی سیاہ اور سندلی رنگ کی ریشمی ساڑھی کا پلو کاندھے پر درست کرتی اور پاﺅں کو اس طرح سے حرکت دیتی کہ اس کی پائل چھنک جاتی۔ اس حرکت سے راحیل مزید بے چین اور مضطرب ہوجاتا، وہ کچھ کہتے کہتے رک جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ راحیل نے ابھی تک اس کے چہرے کو غورسے نہیں دیکھا تھا کیونکہ کمرے میں داخل ہونے اور اس کے پاس آ کر بیٹھنے کے دوران ایک نظر جو اس نے کنول پر ڈالی تھی وہ اس کی آنکھوں کے رنگ میں ہی اٹک کر رہ گئی تھی۔ آنکھیں بھلے جیسی بھی ہوں پر وہ رنگ سمجھ سے باہر تھا۔ اسے ان آنکھوں میں قدرت کے ان دیکھے رنگوں کی جھلک نظر آئی جسے وہ بار بار دیکھنا چاہتا تھا۔ 
”آپ طوائف کیوں بننا چاہتی ہیں“ راحیل نے پہلا اور انتہائی بے تکا سوا ل کیا ۔ جس کے جواب میں کنول نے اسے چونک کر دیکھااور کتنی ہی دیر اس کا چہرہ تکتی رہی ، وہ راحیل کی کالی سیاہ آنکھیں کھنگالتی رہی۔ راحیل کے نظر جھکانے اور پھر اٹھا کر کنول کو دیکھنے تک اس کی آوارہ نظریں اس کے چہرے پر آوارہ گردی کرتی رہیں۔ 
”بہتر ہوگا اگر آپ میرے سوال کا جواب دیں “، کچھ دیر بعد راحیل نے کنول کی آوارہ نظروں کو ٹوکتے ہوئے کہا۔ 
راحیل کی آواز نے اسے چونکا دیا ، وہ اس انداز سے مسکرائی کہ اسے اپنی نظر کی بے باقی پر فخر ہو۔
”آپ ہمارے بارے میں کیا جانتے ہیں اور کیا جاننا چاہتے ہیں؟“، کنول نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا
راحیل نے اپنا سوال دوبارہ دوہرایااور جواب کا انتظار کرنے لگا۔ 
”آپ محبت کے بارے میںکیا جانتے ہیں ؟“کنول کے اس سوال کے جواب میں راحیل نے کچھ کہنا چاہا البتہ یہ سوچ کر خاموش رہا کہ اب جویہ بولی ہے تو بہتر ہے اسے ہی بولنے دیا جائے۔ 
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کنول کی غائب سوچ کہیں دور دراز کی دنیا سے ہو کر واپس وہاں حاضر ہوئی اور اس نے فلسفے کے کسی پروفیسر کی طرح وہیں سے بولنا شروع کیا جہاں سے چھوڑا تھا، ”آپ کیلئے محبت کیا ہے ، میں نہیں جانتی ۔ لیکن ہمارے ہاں محبت آوارہ ہے،یہ کہیں بھی کیسے بھی گھس آتی ہے،اس کے ہاں اجازت لینے اور دستک دینے کا کوئی رواج نہیں، بس اسیر کر لیتی ہے اور پھر اپنی مرضی چلاتی ہے، خوب رسوا کرتی ہے، چٹان جیسے پتھر دل کو موم بنا دینے میں اسے وقت نہیں لگتا“۔ 
کنول کے اس فلسفہ میں راحیل کو کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ یہ اس کے سوال کا جواب نہیں تھا، اسے کنول کی عقل پر ہنسی آ رہی تھی جو بازار میں بیٹھی تھی اور ایک مرد کو محبت پر قائل کرنے چلی تھی۔ 
”مجھے محبت اتنی پسند ہے کہ اپنی روزی بھی اسی کے ذریعے کمانا چاہتی ہوں۔ ایک ایسی عورت بننا چاہتی ہوں جس کا دل محبت سے سرشار ہو، جواپنے ہاں آنے والے ہر پیاسے کو محبت کے دریا سے سیراب کر دے، جس کی محبت کے قصے ہر کسی کی زبان پر ہوں ۔“

”تمہاری اور تمارے اس فلسفے کی ہماری دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ، یہ صرف تمہارا گمان ہے کہ ہمارے معاشرے کو تمہاری ضرورت ہے، تمہیں نہیں لگتا یہ گناہ ہے، برا کام ہے، غلاظت ہے؟“کنول کی بات کاٹتے ہوئے راحیل نے بہت سارے سوال ایک ساتھ کر دیئے۔ ”کنول نے پہلی بات وہیں چھوڑتے ہوئے دوبارہ بولنا شروع کیا ”میں یہ سوچتی ہوں اس دنیا میں وہ گناہ ، گناہ نہیں ، جس کاجواز گناہ کرنے والے کے پاس موجودہو۔ چور ی کرنا کسی کی کی جان لے لینا گناہ ہے۔ لیکن بھوکے کا روٹی چرانا اور سزائے موت کے قیدی کو لٹکا دینا گناہ نہیں کہلاتا ۔اگر گناہ میں پڑنے والا شخص آپ کو قائل کر لے کہ یہ سب وہ مجبوری یا کسی جواز کے تحت کر رہا ہے تو آپ کیا کہیں گے؟
کسی بھی جاندار کی جان لینا یا اس کا خون بہانا گناہ ہے۔ ہمارے ہاں قصائی ہر روز کتنے جانوروں کی گردن پر چھری پھیر دیتا ہے۔ کسی بھی جاندار کی جان اپنے مزے کیلئے نکال لینا گناہ ہے، لیکن اگر چھری پھیرنے سے پہلے ”اللہ ھو اکبر“پڑھ لیں تویہ گناہ نہیں رہتا، حرام نہیں بلکہ حلال ہو جاتا ہے۔ ”اللہ ھو اکبر“ایک جواز ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو نعمت کے طور پر بخشا ہے۔میرے پاس بھی اس کام کا جواز ہے ، جس کے بعد یہ میرے لیے حرام یا برا کام نہیں رہتا“۔
راحیل پڑھا لکھا، باشعور لڑکا تھا ، اس کے باوجود وہ اس ان پڑھ ، جاہل اور اپ کمنگ طوائف کی باتوں کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ 
جب وہ اس جگہ آیا تو اس کے دل میں کنول کیلئے کوئی جذبات نہیں تھے ، اب بھی اس نے کچھ خاص محسوس نہیں کیا تھا ۔لیکن پھر بھی وہ چاہتا تھا کنول اس کام میں نہ پڑے ،یہ بات وہ کنول سے یہ کہہ دینا چاہتا تھا ، لیکن اس کے بر عکس وہ کنول کی باتیں سن رہا تھا،ا نہیں دماغ کی کسوٹی پرپرکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کا جائزہ لے رہا تھا۔
اچانک کنول کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ، اس کا فلسفہ جاری تھا، ”جس کے پاس جو چیز زیادہ ہوتی وہ اسے خیرات کر دیتا ہے، میرے پاس محبت زیادہ ہے، سو میں اسے ہی خیرات کر دینا چاہتی ہوں۔ اس جہاں میں سب کچھ مل جاتا ہے،سوائے محبت کے ،محبت سب سے افضل ہے۔ میں نے دنیا کو صرف اپنے کوٹھے کی اس بالکونی سے دیکھا ہے اور مجھے تو یہی محسوس ہوا کہ اس دنیا میں رہنے والا ہر شخص محبت کے معاملے میں فقیر ہے۔ محبت کے بھوکے ان انسانوں کو سب کچھ خیرات میں مل جاتا ہے، لیکن محبت کے معاملے میں پیاسے ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کا المیہ ہے انہیں محبت لینی آتی ہے پر دینی نہیں آتی ، یہ چاہتے ہیں ان کیلئے ان کی محبت میں ہر کوئی ٹوٹ کر بکھر جائے ، اپنا آپ گنوا دے ، لیکن یہ خود مکمل رہنا چاہتے ہیں،محبت سے لاتعلق اور بنجر دلوں والے ان فقیر وں میں اپنے محبوب کو برباد کردینے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہے،انہیں نہ محبت کی پہچان ہے نہ محبت کرنے والے کی۔ نہ جانے طوائف کی جوٹھی گود میں انہیں کیا سکون ملتا ہے جو سب کچھ داﺅ پر لگا کر آجاتے ہیں ہماری چوکھٹ پر“۔ 

کنول کی باتیں سن کر اسے تھوڑی دیر کیلئے تو یہ گمان ہونے لگا کہ وہ جاہل ہے اور اس کے سامنے بیٹھی اوٹ پٹانگ بکنے والی یہ لڑکی کوئی سکالر ہے جس سے وہ لیکچر لینے آیا ہے۔ اس کا سر چکرانے لگا، وہ انٹر ویو بھول چکا تھا۔اس سے پہلے کہ راحیل اس تھرڈ کلاس ان پڑھ لڑکی کے فلسفے پر قائل ہوجاتا اس نے اپنا ریکارڈ بند کیا، بستہ اٹھایا اور وہاں سے چلتا بنا، سیڑھیا ں اترتے وقت اس کے دل میں ایک مرتبہ ان آنکھوں کاخیال آیا، جنہیں چند لمحے پہلے وہ گھور رہا تھا، اس خیال کے تعاقب میں اسے اپنی اسائنمنٹ کا خیال آیا جس کے فوراََ بعد وہ کوئی دوسرا ٹاپک سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ 

راحیل کا یوں اٹھ کرجانا کنول کے دل پر اثر کرگیا، وہ افسردہ سی ہو کر اسی بالکونی میں کھڑی ہو گئی اور اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے لگی۔ شام ڈھل چکی تھی ، راحیل اور پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اگلا سال چڑھتے ہی وہ 17 برس کی ہو جائے گی، یہ سوچ کروہ اور بھی غمگین ہو گی کہ اس کی آدھی جوانی گزر چکی اور ابھی تک وہ ، وہ نہیں بن پائی جو وہ بننا چاہتی ہے۔کنول شدت سے سوچنے لگی کہ آج تک اس کا سودا کیوں نہیں کیا گیا، ہر روز سودا گر آتے ہیں لیکن کوئی اس کی قیمت نہیں لگاتا۔ ایسی کیا بات تھی کہ سودا ہوتے ہوتے رہ جاتا ۔ 

کنول ابھی اسی سوچ میں غرق تھی کہ اسے آوازپڑی گئی ۔ یقینا آج قسمت نے اسے نہیں بخشا، اس کا سودا ہو چکا تھا۔ 
کچھ ہی دیر بعد ایک درمیانی عمر کا مردا س کے کمرے میں موجود تھا، کنول اس کیلئے لوازمات اکھٹے کر رہی تھی، چائے کی پیالی کنول نے جو پیش کی تو اس محبت کے پیاسے شخص نے جھپٹ کر کنول کی کلائی تھام لی، جیسے کنول اس پیاسے کی پیاس بجھائے بغیر کہیں دور بھاگنے لگی ہو۔ کنول ہڑبڑائی اور چائے کی پیالی اس کے ہاتھ سے گر گئی ، اس نے نظر اٹھا کر اس پیاسے کو دیکھاجسے وہ محبت کے سمندر میں غوطے دینا چاہتی تھی۔ 

لیکن اس شخص کی سفاک سرخ آنکھوں سے ٹپکتی ہوس، چبھتی نظریں اور کلائی پر محسوس ہونے والے اس وحشت ناک اور بیگانے لمس نے کنول کے جسم میں چبھن بھردی ۔ اس کا دل مردہ اور محبت دھواں ہو گئی۔ ان لمحات کے بعد اسے سمجھ آ گیا کہ ہر کسی کو محبت کی بارش میں نہلانے سے پہلے اسے خود محبت کے سمندر میں غوطے کھانے ہوں گے، ڈوبنا ہو گا، اپنی ذات کی نفی کرنی ہوگی۔ اس کے چہرے سے جھلکنے والا کرب اس بات کی گواہی دے رہا تھاکہ محبت آوارہ ہے نہ خیرات کی جاسکتی ہے، ہر کسی کے سامنے اپنے وجود کی نفی کرنا آسان نہیں ، کیونکہ محبت کا لمس کچھ اور ہوتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment